کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 37
زہد کے مفہوم و مقصد کےحوالے سے اقوالِ سلف: سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’تمام التقوى أن يتقي الله العبد، حتى يتقيه من مثقال ذرة،وحتى يترك بعض ما يرى أنه حلال،خشية أن يكون حراما،حجابا بينه وبين الحرام[[1] کامل تقویٰ یہ ہے کہ بندہ اللہ سے ڈر جائے حتیٰ کہ ذرہ ذرہ کے بارے میں اسے اللہ کا خوف ہو اور حرام کے خوف سے چند حلال چیزیں بھی ترک کردے تاکہ و ہ حرام سے مکمل طور پر بچ جائے۔ ابراہیم بن ادہم کہتے ہیں کہ[الْوَرَعُ تَرْكُ كلّ شُبھةٍ،وترك مالايعنيك هوترك الفضلات[ [2] ترجمہ:’’زہدو ورع یہ ہے کہ ہر مشکوک ومشتبہ چیز،اورہر غیر ضروری معاملےسے بچا جائے،اورفاضل و زائداشیاء کو ترک کردیا جائے ‘‘۔ امام ثوری رحمہ اللہ کا قول ہے : [إنماسموا المتقين؛لأنھم اتقوامالا يُتَّقى ‘.[[3] ترجمہ: ’’متقین اس لئے متقی کہلائے کیونکہ انہوں نے ہر وہ چیز ترک کردی جس سے بچنے کا حکم تھا ‘‘۔ اور کسی سلف کا قول ہے کہ: [الْوَرَعُ الْخُرُوجُ مِنَ الشَّھَوَاتِ، وَتَرَكُ السَّيِّئَاتِ‘[[4] ترجمہ: ’’زہد و تقوی شہوات سے نکلنا اور گناہوں کو چھوڑ دینا ہے ‘‘۔ یونس بن عبيد نے زہد کی تعریف یوں کی :[ الْوَرَعُ الْخُرُوجُ مِنْ كُلِّ شُبْھَةِ،ومحاسبة النفس في كلِّ طرفة عين[[5] ترجمہ:’’ہر قسم کے شبہ سے بچنا اور ہر لمحہ کا محاسبہ کرنا ورع وتقویٰ کہلاتا ہے ‘‘۔
[1] کتاب الزھدلابن المبارك کی(الزهد)) (2/19)،اور أبو نعيم کی(الحليہ)(1/212)،اور ابن عساكر کی(تاريخ دمشق) (47/160) [2] مدارج السالكين بين منازل إياك نعبد وإياك نستعين (2/ 24) [3] جامع العلوم والحكم لابن رجب ص 209 [4] مدارج السالكين بين منازل إياك نعبد وإياك نستعين (2/ 24) [5] حوالہ مذکورہ (2/ 24)