کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 36
حق ہے جس کی زندگی لا محدود ہے ہمیں ان صفات کا حامل ہونا چاہئے جس چیز سے ہماری زندگی خالی ہوتی جارہی ہے اوربہت تلاش کرنے پر بھی کوئی شخص اس صفت کا حامل نہیں ملتاہے اوروہ جنس اتنی کمیاب بلکہ نایاب ہوچکی ہے کہ اب دن کی روشنی میں بھی تلاش کرنےسے اس صفت سے متصف لوگ نہیں ملتے!جس گراماں صفات کےبارے میں،یہ تمہید باندھی ہے اس کا نام زہد و تقویٰ اور ورع ہے۔ہماری زندگی میں عبادات موجود مگر دل کا تقویٰ و ورع نا پید ہےاگرچہ ہماری عبادات میں بھی تشویشناک کمی ہو گئی ہے۔ خشوع وخضوع یعنی اللہ کا خوف،خشیت الہٰی تقریباََہم خیال اگر ہم سفر ہوجائیں تو منزلیں آسان ہوجاتی ہیںناپید ہے(الامن رحم ربی اللہ ) تاہم موضوع ہذا میں ہم زہد و ورع اور سلف الصالحین کے نزدیک زہد و تقویٰ کا کیا معیار تھا بیان کرنے کی کوشش کریں گے ان شا ءاللہ اورہم ابتدا زہد کی تعریف سے کرتے ہیں اور اختتام میں ہم اس غلط فہمی کی نشاندہی بھی کریں گے جس طرح زہد کی غلط صورت رائج ومعروف ہے و باللہ التوفیق۔
زہد کی تعریف اور ائمہ کرام کے اقوال
امام جرجانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
’الزھد في اللغة ترك الميل إلى الشيء،وقيل:هو ترك راحة الدنيا طلبًا لراحة الآخرة [[1]
’’زہد دراصل کسی چیز کی طرف میلان کو ترک کرنا ہے،بعض نے اس کی یہ تعریف بیان کی ہے’’ دنیا کی راحت کوآخرت کی راحت حاصل کرنے کے لئے ترک کرنا زہد کہلاتا ہے ‘‘۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ز ہدکی تعریف میں فرماتے ہیں :
’الزهد:هو ترك ما لا ينفع في الآخرة‘
ترجمہ ’’:ہر وہ چیز جو آخرت میں فائدہ نہ دے اسے ترک کرنا زہد کہلاتاہے ‘‘ ۔
[1] التعريفات للجرجانی:ص،115