کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 33
(3) تیسری بات یہ ہے کہ وہ اس چیز کو اپنے ایمان کا حصہ بنا لے کہ جو چیز اللہ رب العزت نے اس کی قسمت میں لکھ دی ہے وہ اس کے زہد کے سبب سے اس کی دینداری کی وجہ سے اس سے دور نہیں ہوئی اور اگر وہ چیز اس کی قسمت میں نہیں ہے تو وہ جتنی بھی کوشش کرلے وہ اسے حاصل نہیں ہوگی یعنی وہ اللہ کی تقدیر پر صابر اور شاکر رہے۔ جب تقدیر پر ایمان کی یہ کیفیت ہو جائے کہ کسی چیزکے حاصل نہ ہونے پر مغموم نہ ہو بلکہ اس کا دل تقدیر کے اس فیصلے کے آگے مطمئن ہو جائے تو یہ زہد کی معراج ہے۔تقدیر پر ہمارے اسلاف کس قدر یقین رکھتے تھے اور کیسا یقین رکھتے تھے اس کا اندازہ اس واقعے سے لگائیں۔جو علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ نے طبقات حنابلہ کے ذیل میں لکھا ہے انتہائی دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی ۔ محدث عراق جومسند عراق کے لقب سے معروف ہیں، یعنی امام ابو الفتح محمد بن عبدالباقی کا بیان ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں اقامت پذیر تھا ، ایک دن مجھے بھوک نے ستایا ، میرے پاس کچھ نہ تھا ، بھوک سے میری حالت نڈھال ہوتی چلی گئی،اس حال میں چلتے ہوئے مجھے ایک بٹوا راستے سے ملا، یہ بٹوا ریشم کا تھا ، اور ریشم کی ڈوری سے بندھا ہوا تھا، اپنے گھر پر لاکر جب اسے کھولا تو دیکھا موتیوں کا ہار اس میں رکھا ہوا ہے ایسے موتی میں نے زندگی میں نہیں دیکھے تھے، میں نے اسی حال میں اسے رکھ دیا ، گھر سے باہر نکلا تو ایک شخص پکار رہا تھا ، میرا بٹوا گم ہو گیا ہے جس میں موتیوں کا ہار تھا ، جو صاحب مجھے اس کا پتہ دیں گے ان کو پانچ سو دیناربطور انعام دوں گا، یہ دیکھ کر میں نے اس کو بلایا ، اور اسے ساتھ لیکر اپنے گھر پر آیا ، اس سے بٹوا کے متعلق اور موتیوں کی تعداد وغیرہ کے بارے میں پوچھا اور اس نے سب صحیح بیان کر دیا، تب میں نے وہ بٹوا ان کے حوالے کردیا، وہ بڑا احسان مند ہوا اور حسب وعدہ مجھے پانچ سو دینار دینے لگا، مگر میں نے شکریہ کے ساتھ وہ واپس کردیں ، انہوں نے اصرار بھی کیا ، تو بھی میں نے لینے سے انکار کردیا، امام محمد رحمہ اللہ بن عبدالباقی کی امانت و دیانت کی یہ داستان تو خیر معمولی قصہ ہے، وہ چاہتے تو موتیوں کے اس ہار کو دبانے کے لئےحیلوں بہانوںکا سہارا لے سکتے تھے ، مگر انہوں نے تو پانچ سودینار بھی قبول کرنے سے انکار کردیا، یہ