کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 32
اور وہ اس دھوکہ میں رہتے ہوئے شیطان کے بہکانے کا شکار نہ ہو جائے۔اس پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : {وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ} [لقمان: 33] ترجمہ : ’’کہیں تمہیں شیطان اللہ کے حوالے سے دھوکے میںنہ ڈال دے‘‘۔ اور پھر اس غرور کی وضاحت فرما دی۔ {وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ} [آل عمران: 185] ترجمہ :’’ اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے ‘‘۔ یعنی دنیا کو صرف متاع نہیں بلکہ متاع غرور کہاہے اہل عرب متاع کا لفظ بہت ہی گھٹیا اور کم تر شے پر استعمال کرتے ہیں حتیٰ کہ وہ اس لفظ ِمتاع کو اس کپڑے پر بھی بولتے تھے جو عورت مخصوص ایام میں استعمال کرتی ہے ۔ (2) دوسرے نمبر پر وہ یہ بھی یقین کرلے کہ اس دنیا کے آگے بہت بڑا گھر ہے جو قدر و منزلت کے اعتبار سے اس دنیا کے مقابلے میں اعلیٰ اور ارفع ہے۔ اسی لئے اس کا مختلف ناموں سےقرآن مجید میں تعارف کروایا گیا ہے۔ جیسے دار الآخرۃ ،دار القرار ،دار السلام۔ والآخرۃخیروابقی [1]نیز اس حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےبھی ہمیں یہ درس ملتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’قَدْنَھَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا‘۔ ’’میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا ابتدا اسلام میں،اب تم اس کی زیارت کیاکرو‘‘ یہ روایت صحیح مسلم کی ہےجبکہ ترمذی میں یہ الفاظ’تذکر الموت‘’’اس سے موت کی یاد گیری رہتی ہے‘‘۔ ابن ماجہ کی روایت میں جو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں یہ الفاظ بھی ہیں ’و تزھد فی الدنیا‘ ’’قبرستان جانے سے دنیا سے بےرغبتی پیدا ہوتی ہے‘‘۔
[1] لہٰذوہ ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی اور کبھی ختم نہ ہونےوالے عیش آرام کو حاصل کرنے کے لیےوہ ہمیشہ اللہ رب العزت کی رضاکا متلاشی رہے اور اس کی معصیت سے ڈرتا رہے۔