کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 31
بالکل یہی حالت انسان کی ہے جب وہ پیدا ہوتاہے تو وہ کتنا بے بس اور محتاج ہوتاہے جس طرح زمین سے اُگنے والا سبز ہواؤں کے رحم وکرم پر ہوتاہے پھر یہ انسان بچپن سے جوانی کی طرف آتاہے ، ایسے ہی زمین سے نکلنے والا یہ سبزہ اب کھیت وکھلیان کی صورت میں یا تناور درخت کی صورت میں سامنے آتاہے اور پھر انسان بوڑھا ہوجاتاہے تو دوسروں کا محتاج ہوکر رہ جاتاہے اور پھر اس دنیا سے چلاجاتاہے۔جس طرح کھیتی پک کر کٹ جاتی ہے اور زمین ایسا منظر پیش کرتی ہے جیسے یہاں کچھ تھا ہی نہیں ۔ ایسا ہی حال انسان کا بھی ہوتا ہےپھر وہ ایک بھولی بسری داستان ہو کر رہ جاتا ہے۔ بلکہ یہاں تک ارشاد فرمایا: {وَمَاهَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ} [العنكبوت: 64] ترجمہ :’’اور نہیں ہے یہ دنیوی زندگی مگر دل لگی ،اور کھیل کود (کھیل تماشا) اور بلاشبہ اُخروی گھر یقیناً وہی (اصل)زندگی ہے کا ش وہ جانتے ہوتے‘‘۔ اس مثال پر بھی غور کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ کھیل تماشہ کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتے اس طرح یہ دنیا کی زندگی بھی کچھ عرصے کے بعد فنا ہوجانے والی ہے ۔ اس دنیا کی کثرت، حرص اور اس کی چمک دمک نے انسان کو اس کے اصل مقصد سے غافل کر دیا ہے۔ اس لئے تنبیہاً ارشاد فرمایا: {أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ (1) حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ} [التكاثر: 1، 2] ترجمہ: ’’مال کی کثرت نے تمہیں غافل کر دیا۔ یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے ‘‘۔ انسان دنیا کے مال کے تعلق سے یہی سمجھتا ہے کہ : { يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ } [الهمزة: 3] ترجمہ ’’ گمان کرتاہے کہ یہ مال ہمیشہ میرے پاس رہے گا‘‘۔