کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 30
ترجمہ :’’ یعنی آدمی کے بہترین اسلام میں سے یہ بات ہے کہ وہ لا یعنی امور کو یعنی فضولیات کو چھوڑ دے‘‘۔ لایعنی امور کو چھوڑنا ایک مسلمان میں حقیقی معنیٰ میں زہد پیدا کرتا ہے۔ یعنی فی زمانہ ایسے بہت سے امور ہیں جن میں اوقات کے ضیاع کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا مثلاََنیٹ،فیس بک،پتنگ بازی،شطرنج،تاش یہ سب شوقیہ طور پریاٹائم پاس کرنےکے لیے کرنا بھی فضولیات میں سے ہے۔ ایک مسلمان کے زہد میں جو چیزیں مزید نکھار پیدا کرتی ہیںوہ تین ہیں ۔امام ابن ِ قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہتینچیزیں زہد میں معاون ہیں۔ (1) بندہ یہ یقین کر لے کہ’’ دنیا کی حقیقت ختم ہو جانے والے سایہ کی طرح ہے۔ اور آنے جانے والے خیالات کی طرح ہے‘‘۔ شیخ رحمہ اللہ نے اس حوالے سے بالکل سچ فرمایا ہے یہی وجہ ہے کہ جب ہم قرآن مجید میں تدبر کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف انداز اور اسلوب سے دنیا کی بےثباتی کوجچےتلے انداز میں ذکر فرمایاہے۔ اس سے دنیا کی اصلیت خاص کر آخرت کے مقابلہ میں اہلِ ایمان کی نظروں میں کُھل کر سامنے آتی ہے۔ ان مقامات پر غور کرنے سے جہاں دنیا کی حقیقت واضح ہوتی ہے وہاں یہ پیغام بھی سامنے آتا ہے کہ اس کو اپنا مقصود اصلی یا مسکن ابدی نہ جانو، لہٰذا اس سے اتنا ہی تعلق رکھو جتنا تمہیں یہاں رہنا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُقْتَدِرًا} [الكهف: 45] ترجمہ: ’’ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال (بھی) بیان کرو جیسے پانی جسے ہم آسمان سے اتارتے ہیں اور اس سے زمین کا سبزہ ملا جلا (نکلتا) ہے، پھر آخرکار وہ چورا چورا ہو جاتا ہے جسے ہوائیں اڑائے لیئے پھرتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے۔‘‘