کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 3
بیٹھ جاتاہوں وہیں باغ وبہار ہوجاتی ہے ــ۔
اگر روح کی یہاں تربیت نہ کی جائے ، اس کا تزکیہ نہ ہو اور بداعمالیوں میں مُبتلا ہو کر بیمار ہوجائے ، تورُوح آخرت میں بھی بیمار رہے گی ۔ قرآن مجید کی بہت سی آیتیں اس حقیقت پر روشنی ڈالتی ہیں :
{ وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا} [الا ٔسراء: 72]
ترجمہ :’’ جو اس دنیا میں راہ نجات سے اندھا ہے ، وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا، بلکہ اور زیادہ گم کردہ راہ ہوجائے گا ‘‘۔
یعنی روح کے ہدایت پانے اور صحت مند ہونے کا تعلق اعمالِ صالحہ سے ہے اور اعمالِ صالحہ کا تعلق دار العمل سے ہے ۔ جب دار العمل سے انسان دا رالجزاء میں منتقل ہوگیا تو اعمال کا سلسلہ بھی منقطع ہوا ۔ پھر روح کے لیے شفا پانا کیوں کر ممکن رہا الا’من رحم ربی‘۔ پس بداعمالیوں سے جو عذاب روح پر طاری ہوتاہے ، وہ عذاب اس دنیا میں ، عالم برزخ میں اور آخرت میں مسلسل چلتاہے ۔ بد اعمالیوں کی سزا اس دُنیا میں بھی ہم کو بھگتنی پڑتی ہے اور آخرت کا عذاب تو دردناک ہے ۔ قوم عاد نے جب ہود علیہ السلام کی نافرمانی کی تو اِسی دُنیا میں انہیں ملعون قرار دیا گیا: {وَأُتْبِعُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً} [هود: 60]
’’ اور اسی دنیا میں ان پر لعنتیں بھیجی گئیں ۔‘‘
وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیتے ہیں ۔ قرآن کہتاہے کہ اسی دُنیا میں اللہ اُن پر لعنتیں بھیجتاہے :
{ إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا} [الا ٔحزاب: 57]
ترجمہ :’’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسواکن عذاب ہے‘‘۔
لعنت کی حقیقت :
لعنت کی حقیقت کیا ہے ؟ لعنھم اللہکے معنیٰ ہیں ابعد ہ عن الرّحمۃ ، اللہ نے اس پر لعنت کی یعنی اُسے اپنی رحمت سے دُور کیا ۔ جیسے مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ، اسی طرح ہماری ارواح اللہ کی رحمت کے بغیر صحت مند اور توانا نہیں رہ سکتیں۔ جیسے مچھلی پانی سے باہر تڑپتی ہے ، اسی طرح انسان کی رُوح بھی اُس رحمت