کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 29
يَرْعَی حَوْلَ الْحِمَی يُوشِکُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ أَلَا وَإِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی أَلَاوَإِنَّ حِمَی اللہ مَحَارِمُهُ أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِمُضْغَةًإِذَاصَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَالْجَسَدُ کُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ[[1] ترجمہ: ’’حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے ۔ اور اِن دونوں کے درمیان چندامور ایسے ہیں جو مشتبہ ہیں۔ لیکن ان کو لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی پس جو شخص شبھات سے بچ گیا تحقیق اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا اور جو شخص شبہات میں داخل ہو گیا تو تحقیق وہ حرام میں واقع ہو گیااسی چرواہے کی طرح جو کسی چراگاہ کے ارد گرد اپنی بکریاں چراتا ہے قریب ہے کہ وہ اس چراگاہ میں داخل ہو جائیں ۔خبردارہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے ۔ خبردار اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ اشیاء ہیں۔ خبردار جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح ہے تو پورا جسم صحیح ہے اور اگر وہ خراب ہے تو پورا جسم خراب ہے، خبردار وہ دل ہے‘‘۔ مذکورہ امور سےیہ بھی واضح ہوا کہ حرام کے ساتھ ساتھ مشکوک اور مشتبہ امور سے بچناچاہیے۔ (3) زہد فی الفضول اس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ فضول سوالات ،سے بلاوجہ کے میل ملاپ سے ، دوستی یاری ، فضول محفلیں اور اپنے نفس کی ہر خواہش پر چلنے سے (جو خواہش نیکی اور خیر کی طرف لے جانیوالی نہ ہو ) بچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک حدیث میںبہت ہی جامع اور مانع انداز میں اسے اس طرح بیان فرمایاہے۔ ’من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه[[2]
[1] صحیح البخاری:باب فضل من استبرألدینہ،ج1،ص101 [2] سنن الترمذی:ج4 ص558