کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 23
[لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۭذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ ؀ كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ ۭلَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ ] [المائدۃ: 78-79] ترجمہ: ’’بنی اسرائیل میں سے جو لوگ کافر ہوگئے ان پر داؤدعلیہ السلام اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ نافرمان ہوگئے تھے اور حد سے آگے نکل گئے تھے۔ وہ ان برے کاموں سے منع نہیں کرتے جو وہ کر رہے تھے اور جو وہ کرتے تھے، وہ بہت برا تھا‘‘۔ پھر فرمایا: ’’ہرگز ایسا نہیں، اللہ کی قسم!تم ضرور اچھی باتوں کاحکم دو گے، بری باتوں سے روکوگے، ظالم کے ہاتھ پکڑوگے، اور اسے حق کی طرف موڑے رکھوگے اور حق وانصاف ہی پر اسے قائم رکھوگے‘‘،یعنی زبردستی اسے اس پر مجبورکرتے رہوگے‘‘ ۔[1] کفر سے مراد : ان لوگوں کی نافرمانیاں ، وعدہ خلافی اور حدود اللہ سے تجاوز کرنا ہے۔ اور انہی جرائم کی بنا پر انہیں کافر کہا گیا ہے اور ایسے لوگ زبور میں بھی ملعون قرار دیئے گئے ہیں اور انجیل میں بھی۔ اور یہ اسی لعنت کا اثر تھا کہ ان میں سے کچھ لوگ بندر بنا دیئے گئے تھے اور کچھ خنزیر۔ بعض علما کا خیال ہے کہ داؤد علیہ السلام کی بعثت سے قبل ہفتہ کے دن کی بے حرمتی کرنے والے لوگ بندر بنائے گئے تھے اور یہ اسی دور کا واقعہ ہے اور جن لوگوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے آسمان سے دستر خوان اترنے کا مطالبہ کیا تھا۔ پھر دسترخوان اترنے کے باوجود بھی ایمان نہ لائے تھے انہیں خنزیر بنایا گیا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ بہرحال یہ تو قرآن کریم سے ثابت ہے کہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں کو بندر اور کچھ لوگوں کو خنزیربنا دیا گیا تھا اور یہ اسی لعنت کا اثر تھا۔ [2]
[1] سنن ابی داود:کتاب الملاحم،باب الأمر والنھی۔حدیث:4336۔ حسن [2] تیسیر القرآن: مفسِّر عبد الرحمن کیلانی