کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 21
چھٹی صفت: نشان جتنا ہوتا ہے اتنا ہی آئینہ دکھاتا ہے لہٰذا ہمیں بھی نصیحت کے وقت یہ خیال رکھنا چاہئے کہ کسی کی غلطی کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کریں ۔ ساتویں صفت: جب وہ نشان ختم ہوجاتا ہے تو آئینہ بھی چہرے کو صاف دکھاتا ہے لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ جب کوئی شخص اپنی غلطی یا برائی کو چھوڑ دے تو دوبارہ اس کا تذکرہ کرکے نہ خود گناہ گار ہوں اور نہ ہی اسے تکلیف پہنچائیں۔ اور اس سے بھی عظیم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سچی توبہ کرنے والوں کی مغفرت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے گناہوں کو نیکیوں میں بھی بدل دیتا ہے۔ فرمان الٰہی ہے: [اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰۗىِٕكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَـيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ] [الفرقان:70] ترجمہ: ’’ہاں جو شخص توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے‘‘۔ وضاحت: جب اللہ ذو الجلال نے ایک شخص کی مغفرت کردی ہے تو ہمیں کیا حق پہنچتا ہے کہ ہم اس کی غلطیوں کا تذکرہ کریں۔ تبلیغِ دین ایک عظیم کارِ خیر ہے درحقیقت یہی فائدے کی بات ہے جس سے دنیا میں بھی امن و سکون ملتا ہے اور آخرت میں بھی بڑا اجر ہے۔ [لَا خَيْرَ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىھُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۢ بَيْنَ النَّاسِ ۭ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًا ][النساء: 114] ترجمہ:’’ ان کی اکثر سرگوشیوں میں خیر نہیں ہوتی۔ الاّ یہ کہ کوئی شخص پوشیدہ طور پر لوگوں کو صدقہ کرنے یا بھلے کام کرنے یا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کا حکم دے۔ اور جو شخص ایسے کام اللہ کی رضا جوئی کے لیے کرتا ہے تو ہم اسے بہت بڑا اجر عطا کریں گے‘‘۔