کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 18
نہیں کرسکتا تو اپنی زبان سے روکے، اور اگر ایسا بھی نہیں کرسکتا تو دل سے بُرا جانے اور یہ کمزور ایمان ہے‘‘۔ وضاحت: جس شخص کے پاس قوت اوراختیارات ہوں (جیسا کہ حکومت، جَج وغیرہ) تو وہ قوت کے ساتھ دین پر عمل کروائے اور اگر اس کے لئے کسی مجرم کو سزا دینی پڑے یا حدود نافذ کرنی پڑیں تو وہ بھی کرے، لیکن اگر ایک شخص کے پاس اختیارات نہیں ہیں تو وہ اچھے انداز سے دین کی تبلیغ کرے اور غلطیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے نصیحت کرے، اور اگر وہ یہ دیکھے کہ میری نصیحت کے جواب میں اس سے بھی بڑا فتنہ برپا ہوجائے گا تو اس صورت میں کم از کم اتنا تو کرے کہ اس برائی کا ساتھ دینے کی بجائے دل میں اس برائی سے نفرت رکھے ۔ چوتھا اصول: تبلیغ دین کے لئے آئینے کی صفات ہونا ضروری ہیں۔ حدیث میں ہے: ’المؤمن مرآة المؤمن‘ ترجمہ: ایک مومن دوسرے مومن کے لئے آئینہ ہے۔ اگرچہ کچھ علمانے اس حدیث کی روایت کو کمزور کہا ہے لیکن کچھ علما کے نزدیک یہ حدیث حسن درجہ تک پہنچتی ہے نیز اس حدیث کو سنہرے اقوال کے ضمن میں بھی لیا جاسکتا ہے۔ اس میں مومن کو آئینہ سے تشبیہ دی گئی ہے لہذا تبلیغ کی افادیت کو بروئے کار لانے کے لئے آئینہ کی چند اہم صفات قابل ذکر ہیں: پہلی صفت: اگر کسی کے چہرے پر کوئی داغ یا نشان نہ ہو تو آئینہ اس کے چہرے کو صاف دکھاتا ہے یعنی زبردستی نشان نہیں دکھاتا۔ اسی طرح ہمیں چاہئے کہ ہم بلاوجہ کسی میں عیب یا غلطی تلاش نہ کریں نیز تہمت سے بھی سخت پرہیز کریں۔ الله تعالیٰ کا فرمان ہے: [وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۨ ][الھمزۃ:1] ترجمہ: ’’ہر طعنہ زن اور عیب جوئی کرنے والے کے لیے ہلاکت ہے‘‘۔