کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 127
پھر جبریل علیہ السلام ، پھر میکائیل علیہ السلام ، پھر اسرافیل علیہ السلام ہیں ۔ اس روایت کی رو سے اسرافیل ان سے سب سے افضل ہوئے کہ جس کی مانند بس ایک ہی دل ہوا کرتا ہے ۔
نیز یہ روایت اولیاء اللہ کی تعداد کو محدود کردیتی ہے۔ جیساکہ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے باب عدد الاولیاء میں اس روایت اور اس جیسی دیگر روایات کو ذکر کیا اور ان پر کلام کیا۔ (کما مرّ) جبکہ قرآن کریم کی رو سے ہر مؤمن ، متقی اللہ کا ولی ہے۔ [1]
بھان متی کا کنبہ :
اہل تصوف نے اس جیسی من گھڑت روایات کی بنیاد پر غوث قطب ، ابدال وغیرہ کا اثبات کیا ہے چونکہ ہمارا موضوع شامی صاحب کے استدلال کے جواب کی حد تک ہے اس لئے ہم یہاں اس بحث سے قطع نظرکرتے ہوئے اپنی بحث کو یہیں تک محدود رکھتے ہیں۔ شامی صاحب کا استدلال ہے اولیاء کا اولاد دینا اور جو روایت پیش کر رہے ہیں اس میں کہیں بھی یہ نہیں کہ ولی بیٹے دیتے ہیں بلکہ اس میں تو خود ان کے دعا کرنے کا ذکر ہے جسے انہوں نے خود بھی بیان کیا۔اور دعا زندوں نے کرنی ہےاور یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی کا بھی ذکر ہے لیکن شامی صاحب کے استدلال اولیاء اللہ سے مانگنے کا اور علی ہجویری سے مانگنے کا تو یہاں ذکر ہی نہیں، یہاں ان سے مانگنے کی تلقین تو نہیں کی جارہی۔اگر شامی صاحب کے یہاں یہ روایت قابلِ اعتبار ہے [2]تو پھر اس روایت کو بھی سامنے رکھیں کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک چیونٹی آسمان کی طرف الٹی لیٹ کر دعائیں مانگ رہی ہے اور بارش مانگ رہی ہے سیدنا سلیمان علیہ السلام نے کہا بس واپس چلو تمہیں دوسری مخلوق کی وجہ سے نوازا گیا۔ [3]اب شامی صاحب نے جو اندازِ استدلال اپنایا ہے اس کی رو سے تو انہیں اس روایت سے بھی یہی استدلال کرنا چاہئے کہ معاذاللہ سلیمان علیہ السلام اور ان کی قوم نے
[1] سورۂ یونس : 62، 63
[2] تنبیہ: یہ روایت محض الزامی طور پر پیش کی جارہی ہے نہ کہ احتجاجاً ۔
[3] تفسیر بن ابی حاتم: 16203