کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 126
(9)علامہ البانی رحمہ اللہ
اس روایت کو’السلسلۃ الضعیفۃ‘ میں لائے اور اسے من گھڑت قرار دیا۔[1]
اس تفصیل کی روشنی میں اس روایت کی اسنادی حیثیت واضح ہوگئی جسے بڑے مزے لے لے کر شامی صاحب نے بیان کیا۔
(10)علامہ شعیب الارناؤط رحمہ اللہ
مسند احمد کی تخریج و تحقیق کرتے ہوئے حدیث علی رضی اللہ عنہ پر حاشیہ لگاتے ہیں :
’وأحاديث الأبدال التي رويت عن غير واحد من الصحابة، أسانيدها كلها ضعيفة‘[2]
یعنی :’’ ابدال کے بارے میں کئی ایک صحابہ سے مروی تمام احادیث سنداً ضعیف ہیں۔ ‘‘
’تلک عشرۃ کاملۃ‘ ان دس اہل علم کے کلام سے واضح ہوگیاکہ مذکورہ حدیث اور اس باب میں مروی دیگر احادیث کی اسنادی حیثیت کیا ہے؟
روایت کی فنی حیثیت :
فنی طور پر اس روایت کے متن کی طرف التفات کرنے پر یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ اس میں لفظی رکاکت اور شرعی نصوص کی مخالفت موجود ہے۔ مثلاً اس روایت میں بعض اولیاء اللہ کے دل فرشتوں جیسے اور بعض کے دل انبیاء جیسے قرار دئیے گئے ہیں۔ جبکہ انسانوں اور فرشتوں کے مابین تخلیقی فرق کے حوالے سے مسلمانوں کا مسلّمہ عقیدہ موجود ہے کہ فرشتے نور کی بنی ہوئی اور انسان مٹی سے بنی ہوئی مخلوق ہیں۔ انسان سے غلطی ہوسکتی ہے اور فرشتوں سے غلطی نہیں ہوسکتی ۔ جوکہ مسلمانوں کی ایمانیات کا حصہ ہے۔ یہ روایت جس میں بعض انسانوں کے دلوں کو فرشتوں کے موافق قرار دیا گیا ،اس مسلمہ عقیدے کے برخلاف ہے۔
نیز اس روایت میں ترتیب کے لحاظ سے پہلے آدم علیہ السلام پھر موسی علیہ السلام ، پھر ابراہیم علیہ السلام ،
[1] السلسلۃ الضعیفۃ : 1479
[2] موسوعۃ مسند احمد : 231/2