کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 124
یا ستر، یا تین سو یا تین سو تیرا ، یا ایک قطب ۔[1]اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت صحیح ثابت نہیں اور سلف نے اس طرح کے کسی لفظ کا استعمال نہیں کیا سوائے ابدال کے۔
تنبیہ:
سلف میں سے اگر کسی نے ابدال کا لفظ استعمال کیا بھی ہے تو اس سے ان کی مراد عام محدثین وغیرہ ہی ہوتے تھے دور حاضر میں ابدال سے متعلقہ تصورات کا قطعاً کوئی معتقد نہیں تھا۔ جیساکہ خود اسی کتاب میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مختلف پہاڑوں سے متعلقہ عوام کا اعتقاد کہ وہاں رجال الغیب رہتے ہیں یا ان میں سے ہر پہاڑ میں چالیس ابدال رہتے ہیں ، شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے ان خرافات کا رد کرتے ہوئے فرمایا وہ رجال الغیب یا ابدال نہیں بلکہ جنات ہیں۔ جنہیں لوگ ابدال یا رجال الغیب سمجھ بیٹھے ہیں۔[2]مزید اس حوالے سے مجموع الفتاوی میں جلد نمبر 11 صفحہ 433 تا 444 تک شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی اس حوالے سے تفصیلی بحث موجود ہے۔
[1] یہ صوفیاء کی اصطلاحات ہیں ، صوفیاء یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس عالم کون و مکان میں ہر وقت تین سو تیرہ اشخاص ایسے رہتے ہیں جو نجباء کے نام سے مشہور ہوتے ہیں۔ پھر ان میں سے ستر کونقباء کہا جاتا ہے۔ پھر ان میں سے چالیس ابدال کے درجے پر پہنچتے ہیں۔ ان میں سے سات کو قطب کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ان میں سے چار اوتار کے درجہ پر فائز ہوتے ہیں اور اُن میں سے ایک غوث کا اعلیٰ مقام حاصل کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ مکہ مکرمہ میں رہتا ہے۔ جب اہل زمین پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے یا رزق کی تنگی ہوتی ہے یا کسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں تو وہ ان تین سو تیرہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرتے ہیں۔ یہ ان فریادوں اور حاجتوں کو اپنے میں سے منتخب شدہ ستر نقباء کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ ستر ان حاجات کو اپنے سے بلند مرتبہ چالیس ابدال کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ پھر یہ چالیس اپنے سے سات منتخب قطبوں کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتے ہیں او ریہ سات اپنے سےبلند مرتبہ چار اشخاص کی جنہیں اوتار کہا جاتا ہے خدمت میں پیش کرتے ہیں۔پھر یہ چاروں اپنے سے منتخب ہستی کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل کرتے ہیں اس کانام غوث ہوتاہے۔ وہ ہمیشہ مکہ معظمہ میں رہتا ہے اور تمام دنیا میں ایک غوث ہوتا ہے۔بیک وقت دو غوث نہیں ہوسکتے۔ اس کا علم اللہ کے علم کے برابر ہوتا ہے او را س کی قدرت اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کم نہیں ہوتی۔ (ماخوذ از ماہنامہ محدث)
[2] ایضاً : صفحہ نمبر 181