کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 123
ہوئے فرمایا:’وسبق في ترجمة عبد الرحيم قوله:أتھمه به أوعثمان‘[1]یعنی عبدالرحیم کے ترجمہ میں حافظ ذہبی کا یہ کلام گزر چکا ہے کہ یہ روایت عبدالرحیم یا عثمان نے گڑھی۔ (3) علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ : علامہ ابن الجوزی نے باب عدد الاولیاء میں مذکورہ روایت اور اس مفہوم کی دیگر روایات کو ذکر کیا اور پھر ہر ایک پر کلام کیا اس روایت پر کلام کرتے ہوئے فرمایا:’أما حَدِيث ابْن مَسْعُود فكثيرمن رِجَاله مَجَاهِيل لَيْسَ فيھم مَعْرُوف‘[2]یعنی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں کئی مجہول راوی ہیں جن میں سے کوئی بھی معروف نہیں ۔ (4)شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے گوکہ عقیدہ واسطیہ میں ابدال کا لفظ استعمال فرمایا لیکن وہ اس تعلق سے تمام ضعیف و من گھڑت احادیث کی بھی نفی کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’وكذا كل حديث يروى عن النبي صلى الله عليه وسلم في عدة الأولياء،والأبدال،والنقباء،والنجباء،والأوتاد،والأقطاب،مثل أربعة،أوسبعة،أواثني عشر،أوأربعين،أوسبعين،أو ثلاثمائة،أوثلاثمائة وثلاثة عشر،أوالقطب الواحد،فليس في ذلك شيء صحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم،ولم ينطق السلف بشيء من هذه الألفاظ إلا بلفظ الأبدال‘ [3] یعنی : اسی طرح اولیاء کی تعداد1ابدال2 نقباء3، نجباء4 اوتاد5 اقطاب مثلاً چار یا سات یا بارہ ، یا چالیس ،
[1] لسان المیزان :349 [2] الموضوعات لابن الجوزی : کتاب الزھد ، باب عدد الاولیاء ، 152/3 [3] الفرقان بین اولیاء الرحمٰن و اولیاء الشیطان :صفحہ نمبر 17