کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 122
گھڑت ) کے درجے پر ہےاس کی سند میں دو راوی مجہول ہیں عبدالرحیم الارمنی اور عثمان بن عمارہ۔ کئی ایک اہل علم اس روایت کو موضوع قرار دے چکے ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
(1) حافظ ذہبی رحمہ اللہ :
حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں عثمان بن عمارہ کے ترجمے میں اس روایت کو موضوع من گھڑت قراردیتے ہوئے فرمایا:’وهو كذب، فقاتل الله من وضع هذا الإفك‘[1] یعنی یہ جھوٹی روایت ہے اللہ اسے ہلاک کرے جس نے یہ روایت گھڑی۔ مزید اس روایت کو تلخیص کتاب الموضوعات میں لائے اور فرمایا: ’رَوَاهُ أَبُو نعيم فِي" الْحِلْية " ثَنَا مُحَمَّد بن أَحْمد بن الْحسن، ثَنَا مُحَمَّد بن السّري الْقَنْطَرِي ضَعِيف عَن قيس بن إِبْرَاهِيم السامري، عَن عبد الرَّحِيم بن يحيى عَن عُثْمَان بن عمَارَة وَهَذِه ظلمات بَعْضھا فَوق بعض الْوَضع من أحدهم‘[2]
یعنی ابو نعیم نے حلیہ میں بیان کیا ہے کہ محمد بن احمد بن حسن بیان کرتے ہیں کہ مجھے محمد بن السری القنطری (ضعیف) نے بیان کیا وہ قیس بن ابراہیم السامری سے روایت کرتے ہیں اور وہ عبدالرحیم بن یحیٰ سے وہ عثمان بن عمارہ سے اور یہ (عبدالرحیم بن یحیٰ اور عثمان بن عمارہ ) ظلم پر ظلم ہیں اور وضع ان میں سے کسی ایک کی طرف سے ہے۔ اور المغنی فی الضعفاء میں عثمان بن عمارۃ کے ترجمہ میں اس روایت کی طرف اشارہ بھی کیا اور عثمان بن عمارہ کے بارے میں کہا کہ یہ کذاب ہے۔[3]
(2)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہنے لسان المیزان میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے کلام کو برقرار رکھا بلکہ استدراک کرتے
[1] میزان الاعتدال:5549
[2] تلخیص الموضوعات: 841، رقم الصفحۃ :307/1
[3] المغنی فی الضعفاء: 4049