کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 117
اپنے لوگوں کے علاوہ غیروں نے اعتراف کیا اور جان ولیم لکھتے ہیں ’’لندن اور پیرس جیسے مغربی شہروں میں اس دور کے سات سو سال بعد تک رات بازاروں میں ایک لالٹین تک نہیں جلتی تھی۔اگر کوئی شخص بارش کے دن اپنےگھر کے دروازے سے قدم نکالتا تو پاؤں کیچر میں دھنس جاتے تھے۔اور ادھر مسلم اسپین میں دس دس میل لمبے بازاروں میں مصنوعی روشنی میں بڑے آرام سے لوگ رات کو چلتے تھے۔[1] اسی دور میں بنوا غلب کے دور حکومت میں مسلم بحریہ کا دبدبہ اور رعب بہت بڑھ گیا،مؤرخ لین پول لکھتے ہیں ’’اغلبی حکمران ساحل افریقہپر پوری شان و شوکت رکھتے تھے۔ان کے بحری بیڑے کی بنا پر اٹلی،فرانس اورسسلی کےساحلوں پر قابض ہوگئے تھے۔جزیرہ سسلی تو بڑے عرصے تک قبضے میں رہا،اغلبی حکمرانوں کا دور بحیرہ روم۔پر مسلمانوں کی کا میابی کا عظیم دور تھا۔[2] بنو اغلب نے (قیروان)شہر کو دارلحکومت بنایا تھا جس کو جناب عقبہ بن نافع جیسے مشہورسپہ سالارنے آباد کیا تھا ۔اس کا حال جنرل گلب نے لکھا ہے ’’قیروان مذھبی علوم وفنون میں ایسا ہی مشہور تھا جیسے قرطبہ اور بغداد،بحیرہ روم کی طرف سے بحری حملے کے خطرےکی وجہ سے ساحلوں پر دفاعی قلعے تھے۔جدید اور بر وقت اطلاعاتی نظام تھا،ساحلوں پر مختلف مینارے(Tower)تھے۔جس پر آگ جلا کر ساحلی محافظوںکوخبردار کیا جاتا تھا۔[3] تیسری صدی میں مسلم بحریہ نے کریٹ مالٹا،جنوبی اٹلی اور فرانس کے مختلف علاقے فتح کیے،پاپائے روم پرہیبت اتنی تھی کہ وہ خراج دے کرحفاظت مانگتا تھا۔بنو اغلب کے حکمران زیادۃ اللہ نے یورپین جزیرے سسلی کو فتح کرنے کے لیےاپنے قاضی اسد بن فرات کو بھیجناچاھاتو انہوں نے فوج کی قیادت ناپسند کی اور کہا میںدینی اور علمی منصب پرہوں مجھے اس منصب سے ہٹا کر فوج کا منصب کیوں دے رہے ہو۔حاکم ِوقت زیادۃ اللہ نے فرمایا’’آپ قاضی القضاۃ بھی رہیں گے اور امیرلشکر بھی۔حکم دیا کہ’’آئندہ قاضی اسد کو عہدہ امارتِ فوج اور عہدہ قضا دونوں دیے جائیں ۔ آخر کاربوڑھے قاضی اسد بن فرات جو جوانوں جیسا جوشِ دین رکھتے تھے انہوں نے سو جنگی جہازوں پر مشتمل بیڑے سے صقلیہ(جزیزہ سسلی)پرحملہ کیا،تین دن تک پرجوش لڑائی کے بعد قاضی اسد نےشہر پر اسلامی جھنڈا قلعے پر لہرایا۔یوں اٹلی
[1] A History of intellecual development of europ .p:31/2 [2] The Mohammaden Dynasties-p136{ FN 726 } [3] The impire of the arabs:p:337