کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 115
کے جنگلات میں دیکھی جاتی۔[1] عہدعباسی اور بحری فتوحات 159ہجری میں خلیفہ مہدی کے دور میںعربوں نے گجرات کے ساحل پر بحری حملہ کیا۔160 ہجری میں فوج گجرات کے ساحلی شہربھڑوچ(انڈیا)پہنچ گئی۔ آگےکا حال ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں:’’163 ھجری میں مہدی نے خودرومیوں پر حملہ کیا۔پھر اپنے بیٹے ہارون الرشید کو ایک لاکھ فوج کے ساتھ قسطنطنیہ فتح کرنےروانہ کیا،اس مرتبہ رومیوں نے (90)ہزار دینار سالانہ خرچ دینے پر صلح کرلی ،ادھر ہشام بن عمرو،منصور کے دور میں سندھ کا گورنر تھا،اس نے پہلا کام یہ کیا کہ ایک بحری لشکر لے کربھڑوچ پر حملہ کیاپھر شمال میں کشمیر اور ملتان کا علاقہ فتح کیا۔[2] اسلامی بحریہ اور اندلس کی فتوحات اندلس کا پہلے ذکر کیا گیا ہے،اندلس کو اسپین اور ہسپانیہ بھی کہا جاتا ہےجب افریقہ مراکش پر مسلمانوں نے اپنا دائرہ کار مستحکم کر لیا تو تمام خطرات کی خاتمے،سرحدوں کے حفاظت اور جذبہ جہاد اور اشاعتِ اسلام کے لیے اسپین فتح کرنا بہت ضروری تھا،بعض مؤرخین نےایک افسانہ مشہور کردیا ہے کہ عیسائی بادشاہ راڈرک نے اپنے ایک درباری کاونٹ جولین کی بیٹی کو ہوس کا نشانہ بنایا تو اس نے جذبہ انتقام کے پیش نظرطنجہ کے گورنر طارق بن زیاد کو دعوت دی کہ وہ اسپین پر حملہ کردے۔[3] موسیٰ بن نصیر نے اپنے نوجوان بہادر بربر طارق بن زیاد کو آگے بڑھایا تو اس نے92 ہجری 711ء کو بڑی کامیابی سے اپنی فوج کو ہسپانیہ کے ساحل پر اتارا یہ سات ہزار مجاہدین اسلام جذبہ جہاد سے سر شار تھے،جس پہاڑی پرپڑاؤ کیا وہ فوجی اعتبار سے اہم تھی،آج اسی پہاڑ کو جبل طارق سے نام سے موسوم کیا گیا ہے،یورپین اقوام
[1] A History of medieva islam p:91 [2] فتوح البلدان ۔1/630 [3] اردو دائرہ معارف 906