کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 113
معاویہ رضی اللہ عنہ کی دور میںتینامیر البحربڑے مشہور ہوئے(1)عبداللہ بن قیس(2)جنادہ بن امیر (3)معاویہ بن خدیج۔الغرض سیدنا معاویہ کا دور بحری مہمات کے حوالے سےاسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہے،سمندروں میں حکمرانی شروع ہوگئی تھی،ان کا نام ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔[1] امیر معاویہ رضی کی رضی اللہ عنہ وفات کے وقت،بحیرہ روم اور ساحل مصر پر سولہ سو بحری جہازوں پر مشتمل بحریہ قائم تھی۔[2] دورِ اموی کےکارنامے: رافضی قسم کے مورخین نے بنوامیہ کے دور حکومت کو ظلم اور تشدد سے تعبیر کیا ہے،یہی آج کل کے نام ونہاد مورخین کرتے ہیں،حالانکہ عبدالملک بن مروان اور دیگر خلفاء کے دور میں جو فتوحات حاصل ہوئیں وہ کبھی نہ ملی تھیں۔عبدالمالک کے سپہ سالاروں موسیٰ بن نصیر کے کارنامے مسلم تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھے جائیںگے۔موسیٰ بن نصیر نےآٹھ سال کے عرصے میںچار لاکھ کے قریب بربرقوم کو بااخلاق مہذب اور جہاز سازی کا ماہر بنادیا۔ابن قتیبہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں ’’موسیٰ بن نصیر نےتیونس کی ساحل پر جہاز سازی کی بڑی صنعت قائم کی۔بحری کارخانے میں جہازتیارہوئے تو ان کوسمندر میں اتارنے کا مرحلہ پیش آیا۔ایک مسلمان نے جس کی عمر120 سالتھی ۔ مشورہ دیا کہ سمندر کو کاٹ کر ان کارخانوں سے ملایا جائے۔چنانچہ موسیٰ بن نصیر نے عملا یہ کام شروع کر دیا۔ 19 کلومیٹر طویل مسافت سے سمندر کو کاٹ کر جہازوں سے ملانا اور پھر جہازوں کو پانی کے سپرد کرنا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے[3]
[1] الکامل فی التاریخ3/421 [2] ڈاکٹر حمیداللہ ،تاریخ الاسلام 279 [3] الامامہ والسیاسۃ۔2/70