کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 112
کرمال غنیمت حاصل کیااور راتوں رات صقلیہ کے ساحل کو خیرباد کہہ کر بحفاظت دمشق پہنچ گئے۔[1] 48 ہجری میں خلیفہ وقت امیرمعاویہ رضی اللہ نے قیصر کے عظیم شہر قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لیے بحری فوج روانہ کی،یہ وہی شہر تھا جس کے بارے میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:’أول جيش من أمتي يغزون مدينة قيصر مغفور لهم‘[2] ’’میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر چڑھائی کرے گا وہ بخش دیا گیا ہے ‘‘ اس شہر کو فتح کرنے کا جذبہ سیدنا معاویہ کے دل میں شروع ہی سے پروان چڑھ رہا تھا۔اسی لیے دوبارہ 48 ہجری میں بری اور بحری دو اطراف سے حملہ کیا گیا۔رومی افواج کی دفاعی حکمت عملی اور بہادری نے مسلمانوں کو حیران کر دیا،رومیوں کی دریافت کردہ(آتش یونانی)(جو گندھک تیل اور آتش گیر مادوں سے تر کر کےروئی رسیوں سے جلادئیے،یہ مادہ جس چیز پرپڑتا وہ جل جاتی تھی۔۔۔ الغرض مسلمانوں کے تمام حملے ناکام ہوئے۔اپریل سے ستمبر تک محاصرہ کر کے واپس آئے،اس جہاد میں تیس ہزار مسلمان مجاہدین شہید ہوئے،ان میں ابو ایوب انصاری بھی تھے۔جن کو قسطنطنیہ کی فصل کے نیچے دفن کیا گیا۔ترکوں نے جب(1453 ءمیں یہ شہر فتح کیا تو ان کی قبر کا انکشاف ہوا)(صفحہ33:Decisive momentin the history of islam) اب سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کا دور دورہ تھا،انہوں نے دوبارہ صقلیہ(Sicily)پر حملہ کیا یہاں سے سونا چاندی کے بت بھی ملے جن کے سروں پر ہیرے کے تاج تھے،امیر البحر عبداللہ بن قیس خلیفہ معاویہ کی خدمت میں بھیجے۔[3]
[1] فتوح شام و مصر:97 [2] صحیح بخاری:2924 [3] فتوح البلوان۔1/219