کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 111
روم نے چھ سو بحری جہازوں کے ساتھشام کے ساحل پر حملہ کیا تو مسلم امیر البحر نے رو می بحری بیڑے کو عبرت ناک شکست دی،اب بحیرہ روم مسلمانوں کی آماجگاہ بن گیاتھا۔[1]
بعد ازاں امریکی مورخ فلپ ہٹی لکھتا ہے’’حضرت عبداللہ بن سرح نے652ء میںاپنے سے زیادہ طاقتوریونانی بحری بیڑے کو اسکندریہ کے قریب عبرت ناک شکست دی۔[2]
652ء کو رومی بحریہ کو جس زبردست شکست کا سامنا کرناپڑااس کے بعد حقیقی طورمسلم افواج کی بحری قو ت مستحکم ہوگئی۔ان کے دل اور دماغ سے رومن امپائرو دبدبہ ختم ہو کر رہ گیا۔34ھ بمطابق 655ءمیں مسلم اور باز نطینوں(عیسائی)میں فیصلہ کن معرکہ پیش آیا۔اس معرکے کو بحری بیڑوں کی وجہ سے مستولوں کی جنگ(Batlle of Masts)کہا جاتا ہے۔مصری مصنف غان لکھتے ہیں ’’عربوں نے قسطنطنیہ (Constantinolple)پر سب سے پہلا حملہ 34ھ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں کیا ،برّی فوج کو ایشیائے کوچک اور بحری بیڑے کو طرابلس سے روانگی کا حکم ملا شام کے گورنر امیر معاویہ سربراہ تھے۔بیس ہزار رومی مارےگیے،اسلامی فوج کو بھی کافی نقصان ہوا،بہر کیف پہلے حملے میں قسطنطنیہ فتح نہ ہوا۔(Decisive moments in the history of islam)
اس جنگ میں سمندر کا پانی خون کی وجہ سے سرخ ہوگیا تھا،مسلم بحری لشکر دو سو جہازوں پر مشتمل تھا۔جس نے عیسائی بحری افواج کی کمر توڑ کر رکھ دی۔
33ھ میں مسلمانوں نے صقلیہ پرپہلا حملہ کیا ،صقلیہ کاجزیرہ اہمیت کا حامل تھا ۔خلافت سے اجازت لے کرمسلم بحری بیڑے نے جوتین سو بحری جہازوں پر مشتمل تھا۔صقلیہ پر حملہ کیا ،رومی فوج کو شکست دے
[1] الکامل فی التاریخ 3/45
[2] History of Arabsصفحہ:167