کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 110
قبرص(Cyprus)پر حملہ کیا۔اس سفر میں سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہااپنے شوہر سیدناعبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم کے ہمراہ شریک ہوئیں،(البدایہ والنہایہ،8/984)علامہ ابن خلدون کےمطابق ’’صحابہ کرام کا ایک گروہ قبرص پر حملےکے لیے راضی ہوگیا۔اولین بحری جہاد میں ’ابو ذر غفاری‘ ابوالدرداء‘ شدادبن اوس،عبادہ بن صامت اور ان کی اہلیہ سیدہ ام حرام سیدہ ام حرام بنت ملحاف رضی اللہ عنہم کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔اہل قبرص نےہار مان کر7 ہزار دینار سالانہ خرچ دینے پر مصالحت کرلی۔ام حرام اسی سفر کے دوران شہید ہوئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہی پیشن گوئی فرماچکےتھے۔[1] صحیح بخاری کے مطابق ’’ام حرام فرماتی ہیں کہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا’’میری امت کا پہلا لشکر جو سمندر میں جہاد کرے گا۔ان کے لیے جنت واجب ہوگی،سیدہ ام حرام نےعرض کیا! اے اللہ کے رسول بتا دیجیے میں ان بھی میں شامل ہوں،آپ نے فرمایا’’تم بھی ان لوگوں میں شامل ہو۔[2] علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ لکھتے ہیں’’یہ سیدنا معاویہ کا لشکر تھا،ا ن کےلیے مغفرت اور رحمت ،ان کے نیک اعمال کی بناپر واجب ہے۔[3] اسلامی بحریہ کا قیام کےبعد اس کے مزید استحکام پر خصوصی توجہ دی گئی اور مسلمانوں کاجہازسازی کا شوق دن بدن بڑھتا چلا گیا۔روم کے عیسائی بحری بیڑے کی سمندروںمیں اجارہ داری تھی،یہ بات معاویہ رضی اللہ عنہ کو بدستور فکر مند رکھتی تھی،آپ نے مسلم بحریہ کو بہت تیزرفتاری سے ترقی دی،قبرص کے فتح کے بعد امیر معاویہ اور گورنر افریقہ عبداللہ بن سعد بن سرح رضی اللہ عنہ کے حوصلے بلندہوگئےانہوں نے چند سالوں میںبحریہ کو اتنی ترقی دی کہ اسلامی سمندری قوت طاقتور رومی بحریہ کے برابر آگئی۔31ہجری میں جب قیصر
[1] تاریخ ابن خلدون:۔1/412 [2] بخاری،باب ماقتل فی قتال الروم 2924 [3] ارشاد الساری۔5/104