کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 109
ہیں،اسی طرح اسلام کے پہلے امیر البحریہ دونوں اصحاب ہیں۔(صفحہ 167) سمندر کے ذریعے جہاد کرنا ہمیشہ سے مشکل ترین معاملہ رہا ہے۔اس لیے اجر وثواب کے معاملے میںبھی فضیلت حاصل ہونی چاہئیے۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’المائد في البحر الذی یصیبہ القئی لہ اجرشھید،والغریق لہ اجر شھید ین‘جو سمندر میں سفر کرےاگر اس کا سر چکرائے اور وہ قے کرے تو اسے ایک شہید کا اجر ملے گا۔۔۔اگر وہ ڈوب کر جان دے تو اسے دو شہیدوں کے برابر اجر ملے گا۔[1] اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سمندری مجاہدوں کا موجوں سے لڑنا اور صبر و استقامت اختیار کرناواقعی عظمتوں والا جہاد ہے۔اسی لیے امیر المجاہدین صلی اللہ علیہ وسلم  نے بحری جہاد کر نے والوں کے لیےعظیم بشارتیں بھی دیں۔کبھی انہیں بحری جہازوںپر(خواب میں)دیکھ کر سمندری بادشاہوں کا لقب دیا،کبھی جنت کے واجب ہونے کااعلان کیااور کبھی اپنے عہد مبارک ہی میں قسطنطنیہ کی فتح کی بشارت عطا فرمائی۔اسی طرح فرمایا: ’من رابط في شيء من سواحل المسلمين ثلاثة أيام أجزأت عنه رباط سنة‘ ’’جس شخص نے مسلمانوں کے لیےکسی ساحل سمندر پر تین دن خدمت سرانجام دی اس کے لیے اس خدمت کے بدلےمیں(خشکی پر)ایک سال پہرہ دینے کے برابر ہے‘‘[2]۔ اسلامی بحریہ کی فتوحات کا آغاز سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ گورنر شام امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو آخرکار بحریہ کے ذریعے جہاد کی اجازت دے دی،مورخین کے مطابق آپ نے شرط لگائی کہ کسی کو بھی مجبور کر کے نہ لے جایا جائے،اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خودجائیں اور اپنی زوجہ محترمہ کو بھی لے جائیں،اس حکم سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عثمان سمندری سفر کے خطرات سے مکمل آگاہ تھے،28 ہجری میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے
[1] ابو داؤد،کتاب الجہاد۔2493 [2] مسند احمد،2/403۔صحیح الجامع الصغیر 6544