کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 98
محمد بن علی شوکانی (م ۱۲۵۰ھ) محی السنۃ مولانا سید نواب صدیق حسن خان قنوجی (۱۳۰۷ھ) کی تصانیف کے شیدائی اوردلدادہ تھے۔ برصغیر کے علمائے حدیث میں امام شاہ ولی اللہ دہلوی (م ۱۱۷۶ھ) اور ان کے صاحبزادہ گرامی مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (م ۱۲۳۹ھ) مولانا ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی صاحب عون المعبود فی شرح سنن ابی داؤد (م ۱۳۲۹ھ) مولانا محمد عبد الرحمان محدث مبارک پوری صاحب تحفۃ الاحوذی فی شرح جامع الترمذی ( م ۱۳۵۳ھ) شیخ الاسلام مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری (م ۱۳۶۷ھ) امام العصر مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (۱۳۷۵) بطل حریت اور خاندان غزنویہ امرتسر کے گل سر سید مولانا سید محمد داؤد غزنوی (م ۱۹۶۳ء) شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی (م ۱۹۶۸ء) محقق شہیر مولانا ابو الطیب محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی (م ۱۹۸۷ء) سے بہت زیادہ متاثر تھے اور ان علمائے کرام کی دینی وعلمی ، قومی وملی اور تصنیفی وسیاسی خدمات کے بہت زیادہ معترف تھے۔ علامہ سید سلیمان ندوی (م ۱۹۵۳ء ) کے علم وفضل اور ان کی تصانیف کے بارے میں اکثر راقم سے دوران گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی تصانیف کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ سید صاحب عمدہ ذوق کے حامل اور تاریخ سے ان سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور بہت زیادہ تحقیق کے حامل تھے ان کے تاریخی، ادبی اور مذہبی مقالات پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مطالعہ بہت گہرا تھا۔ مولانا جانباز اپنے اساتذہ میں مولانا ابو البرکات احمد مدراسی (م ۱۹۹۱ء) اور حضرت العلام شیخ العرب والعجم محدث کبیر امام الحافظ محمد گوندلوی (م ۱۹۸۵ء) سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے اور ان کے علم وفضل اور خدمات علمیہ کے بہت زیادہ معترف تھے ۔ مولانا جانباز رحمہ اللہ میں یہ خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی تھی کہ علم اور تقویٰ جن حضرات میں انہیں نظر آتا تھا بڑی فیاض اور کھلے دل سے بھری مجلس میں اس کا اعتراف کرتے تھے۔ دور حاضر کے علماء میں مولانا ارشاد الحق اثری،حافظ صلا ح الدین یوسف، مولانا محمد اسحاق بھٹی، علامہ احسان الٰہی ظہیر اور ان کے برادر اصغر ڈاکٹر فضل الٰہی اور مولانا فاروق الراشدی کے علم وفضل اور