کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 92
تھے اور صرف اردو زبان کے نہیں بلکہ عربی اور انگریزی زبان میں خطابت کے شہسوار تھے بغداد(عراق) میں آپ نے ایک تاریخی خطاب کیا اور اس اجتماع میں عراق کے صدر صدام حسین بھی موجود تھے علامہ شہید کا خطاب سن کر اس قدر متاثر ہوئے کہ کرسی اُٹھ کر علامہ کا منہ چوم لیا۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید تقریر وتحریر میں بے مثال تھے ان کی خطابت کا اعتراف مشہور صحافی آغا شورش کاشمیری مرحوم( جو خود بہت بڑے خطیب تھے) نے کیا ہے :
علامہ شہید علوم اسلامیہ کا بحر زخار تھے تمام علوم عالیہ وآلیہ پر وسیع نظر تھی ملکی اور عالمی سیاست سے پوری طرح باخبر تھے ۔ ان جیسا جہاندیدہ انسان صدیوں بعد پیدا ہوتاہے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید علامہ اقبال رحمہ اللہ کے اس شعر کے مصداق تھے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
علامہ شہید اپنے مسلک اہلحدیث میں بہت زیادہ متشدد تھے اور اس معاملہ میں وہ اپنے آپ میں معمولی سی لچک بھی پیدا نہیں کرتے تھے اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت مثالی تھی اور حدیث کے معاملہ میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت اور شغف کا ایک واقعہ حسب ذیل ہے ۔
غالباً ۱۹۸۲،۱۹۸۳ میں علامہ شہید پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی مرحوم کی دعوت پر ایک تبلیغی پروگرام کے سلسلہ میں سوہدرہ تشریف لائے آپ کے ہمراہ مولانا عطاء الرحمان مرحوم بن شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری اور مولوی نذیر احمد سبحانی بھی تھے۔ حکیم صاحب کے ہاں رات کا کھانا کھایا اور کچھ دیر آرام کرنے کے لیے علیحدہ کمرے میں چلے گئے۔راقم ملاقات کے لیے حاضر ہوا بڑی محبت سے ملے اور خیریت دریافت کی ۔ راقم نے ایک مضمون مولانا حمید الدین فراہی پر ماہنامہ ترجمان الحدیث میں اشاعت کے لیے بھیجا ہوا تھا لیکن ابھی تک وہ شائع نہیں ہوسکا تھا۔راقم نے اس کے بارے میں دریافت کیا علامہ شہید نے فرمایا :
عراقی صاحب میں آپ کا مضمون اپنے ہمراہ لانا بھول گیا وہ مضمون میں ترجمان الحدیث میں