کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 9
نہیں ، اور اس کے تمام اخراجات مرد ہی کے ذمے ہوتے ہیں۔ تاکہ رجعی طلاق کے باوجود گھر آباد ہوجائے۔ لیکن یہاں تو شریعت اسلامیہ میں رجعی طلاق کے بعد جو کام جائز نہیں وہ طلاق سے کہیں پہلے ہورہاہے اور وہ بھی اس طور پر کہ مرد کو نکال باہر کیا جائے۔ فیا للعجب (3) کفالت کے مسائل : گھر کا کفیل تو مرد ہی ہے جب مرد ہی گھر سے دور کردیا جائے اور جب گھر کا سربراہ دو دن گھر سے باہر ہو تو گھر اور بچوں کا پرسانِ حال کون ہوگا؟ ؟ یقیناً پرسانِ حال تو کوئی ہو یا نہ ہو البتہ نہ جانے کتنے شرپسند ایسے کسی موقع کی تاک میں بیٹھے ہوں گے تاکہ گھر میں موجود قیمتی سامان کی لوٹ کھسوٹ آسان ہوجائے۔ نیز گھر کے بیمار یا بوڑھوں کا کون خیال رکھنے والا ہوگا؟؟ (4) نفرت میں اضافہ : جو شخص اپنی ہی بیوی کی وجہ سے اپنے ہی گھر سے باہر ہو تو کیا اس کے دل میں پہلے جیسی محبت اور بیوی کے بارے میں دل میں جو جگہ تھی کیا وہ برقرار رہے گی اور ایسی صورت میں یہ گھر کیا مزید آگے چل پائے گا۔ اس بل میںمیاں بیوی کے باہمی جھگڑے کے حل کے لئے جو قانون بنایا گیا یہ غلط سمت کاپر گامزن ہے اس لئے کہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق اگر میاں بیوی کے درمیان اَن بَن ہوتو شریعت یہ ضابطہ سکھلاتی ہے کہ سب سے پہلے وہ یہ خود باہم مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں ، اور اگر معاملہ خود حل نہ کرپائیں ،تو پھر دونوں کے رشتہ دار صلح کروائیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: [وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَھْلِهٖ وَحَكَمًا مِّنْ اَھْلِھَا ۚ اِنْ يُّرِيْدَآ اِصْلَاحًا يُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَيْنَهُمَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِــيْمًا خَبِيْرًا 35؀] [النساء : 35] یعنی: اور اگر تمہیں زوجین کے باہمی تعلقات بگڑ جانے کا خدشہ ہو تو ایک ثالث مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے مقرر کر لو ۔ اگر وہ دونوںصلح چاہتے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان میں موافقت پیدا کردے گا۔ اللہ تعالیٰ یقینا سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔