کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 85
لکھتے ہیں کہ :
قرآن مجید کے معارف الطائف رکھنے میں جتنی مفید تفسیر کبیر ہے اور کوئی تفسیر نہیں ہے میں نے اس تفسیر سے خوب استفادہ کیا ہے ۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مولانا سیالکوٹی کو بہت زیادہ شغف تھا ان کی ساری زندگی حدیث کی اشاعت وخدمت اور اس کی نصرت وحمایت اور مدافعت میں بسر ہوئی ان کے تلمیذ رشید مولانا عبد المجید خادم سوہدروی (م۱۹۵۹ء) فرمایا کرتے تھے کہ :
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی زبان سے اکثر میں نے سنا فرماتے تھے: حدیث شریف کی کتابیں(صحاح ستہ) تعلیمات اسلامیہ کا سرچشمہ ہونے کے ساتھ ساتھ عربی زبان وادب کا بڑا سرمایہ ہیں۔ [1]
مولانا سیالکوٹی کے علامہ اقبال سے دیرینہ مراسم تھے مرے کالج سیالکوٹ میں دونوں ہم جماعت تھے اور علامہ اقبال کی گرانقدر علمی وسیاسی خدمات کے معترف تھے ملکی سیاست میں ابتداء ہی سے مسلم لیگ سے وابستہ ہوئے اور آخردم تک مسلم لیگی رہے۔
علم وفضل کے اعتبار سے مولانا سیالکوٹی جامع الکمالات تھے علامہ سید سلیمان ندوی (م ۱۹۵۳ء ) جو عالم اسلام اور برصغیر پاک وہند کے نامور محقق ومورخ،دانشور، ادیب ،نقاد اور بہت بڑے مصنف تھے مولانا سیالکوٹی کے علم وفضل کے معترف تھے۔
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی جماعتی خدمات بھی قدر کے قابل ہیں ۱۹۰۶ء/۱۳۲۴ھ میں جب آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس آرہ(مدراس) میں تشکیل ہوئی جس میں مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ کو صدر اور مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کو ناظم اعلیٰ منتخب کیاگیا تو کانفرنس کو پورے ملک میں متعارف کرانے کے لیے ایک سہ رکنی کمیٹی تشکیل کی گئی جس کے ارکان تھے۔
مولانا عبد العزیز رحیم آبادی (م۱۹۱۹ء)
[1] الیس علمائے اہلحدیث ، ص:233