کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 77
بات پر گواہ ہیں[1]۔
امام ابن کثیررحمہ اللہ نے بڑے واضح انداز میں امام مہدی کے بارے میں غلط فکری اور کج فہمی کاتوڑ بھی فرمایاہے کہ روافض اپنے آخری مزعومہ امام محمدبن حسن عسکری کو(مہدی آخرالزماں) کے نام سے پکارتے ہیں ۔بھلا گزشتہ گیارہ صدیوں سے سامراء کی غار میں کوئی کیونکر زندہ رہ سکتاہے ۔اور ہر سال محرم کے مہینے میں لاکھوں لوگوں کا سامراء کی غار کے قریب جمع ہوکر (ادرکنی امام الدھر) پکارنا انتہائی ہذیانی کیفیت کا واضح ثبوت ہے۔
آخری دورمیں جب امام مہدی سات برس خلافت قائم کرچکے ہوں گے اوربلادشام میں قسطنطنیہ کی جنگ میں شریک ہوں گے اس کا احوال صحیح مسلم میں اس طرح بیان کیاگیاہے
عن ابی ھریرۃ ان النبی ﷺ قال:’’سمعتم بمدینۃ جانب منھا فی البر وجانب منھافی البحر ؟ قالوا نعم يا رسول الله قال لا تقوم الساعة حتى يغزوها سبعون ألفا من بني إسحاق فإذا جاؤها نزلوا فلم يقاتلوا بسلاح ولم يرموا بسهم قالوا لا إله إلا الله والله أكبر فيسقط أحد جانبيھا ثم يقولوا الثانية لا إله إلا الله والله أكبر فيسقط جانبها الآخر ثم يقولوا الثالثة لا إله إلا الله والله أكبر فيفرج لهم فيدخلوها فيغنموا فبينما هم يقتسمون المغانم إذ جاءهم الصريخ فقال إن الدجال قد خرج فيتركون كل شيء ويرجعون‘‘
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ کیا تم نے کسی شہر کے بارے میں سناہے جس کی ایک طرف سمندر اوردوسری طرف خشکی ہے ۔عرض کی گئی جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ستر ہزار آدمی اس شہر کے لوگوں سے جنگ نہیں کرلیتے ۔چنانچہ وہ لوگ (سترہزار) جنگ کے لیے شہر میں آئیں گے تو اس شہر کے باہر پڑاؤ ڈالیں گے ۔یہ
[1] النھایۃ فی الفتن والملاحم 1/55