کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 7
آنکھ پھوڑ دیتا ،اجازت لینا تو اسی وجہ سے ہے کہ آدمی کی نظر ( کسی کے ) ستر پر نہ پڑے ۔ [1]
لہذا اس بل سے خاندانی نظام کی پرائیویسی خطرے میں ہے۔ اور ایسی خطرے میں ہے کہ بات بات پر کورٹ تک معاملہ پہنچنے کی نوبت بنائی جارہی ہے۔
دوسری خرابی :عورت کی برتری
اس بل میں ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ اس میں واضح طور پر عورت کی برتری نظر آتی ہے، تھانے میں موجود وومن پروٹیکشن آفیسر(جسے بل کی رو سے خصوصی طور پر اسی قسم کے معاملات کے لئے مقرر کیا جائے گا) کو کسی بھی وقت عورت کال کرسکتی ہے۔ اور شوہر کے خلاف شکایت کرسکتی ہے۔ جبکہ شریعت اس حوالے سے تمام تر ذمہ داری مرد کو دیتی ہے حتی کہ اسے سمجھاتی ہے کہ عورت ٹیڑھی پسلی کی ہے اگر اسے سیدھا کروگے تو توڑ بیٹھو گے۔جیساکہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، عورتوں کے بارے میں میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا ، کیوں کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اوپر کا حصہ ہوتاہے۔ اگر کوئی شخص اسے بالکل سیدھی کرنے کی کوشش کرے تو انجام کار توڑ کے رہے گا اور اگر اسے وہ یونہی چھوڑدے گا تو پھر ٹیڑھی رہ جائے گی۔ (لیکن ٹوٹے گی نہیں ) پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت مانو، عورتوں سے اچھا سلوک کرو ۔[2]
اس حدیث میں بالکل واضح طور پر عورت کے مزاج اور اس کی عادت کو بیان کیا گیا ہے اور مرد کو حکم دیا گیا ہے بات بات پر اسے سیدھا کرنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ اس کی بعض عادات اور معاملات کو برداشت بھی کیا جائے۔ اور صبر کیا جائے۔
تیسری خرابی : مسئلے کے تدارک کے لئے غلط سمت کا تعین
اس بل کے آرٹیکل 7 جو پروٹیکشن آرڈر پر مبنی ہے۔ اس کی پہلی شق ملاحظہ فرمائیں:
[1] صحیح بخاری: 5924، کتاب اللباس ، باب الامتشاط
[2] صحیح بخاری: 3331 ، کتاب احادیث الانبیاء ، باب خلق آدم صلوات الله عليه وذريته صحیح مسلم : 1468، کتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء