کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 6
اس بل کی بھی ہوجائے، کیا واقعتاً اس میں عورت کا تحفظ ہے یا اس سے اس کی خاندانی زندگی ہی خطرے میں پڑجائے گی ،نیز یہ بھی ملاحظہ کریں کہ شرعی طور پر اس کی حیثیت کیا ہے۔ پہلی خرابی : خاندانی نظام خطرے میں سب سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ مغرب کا خاندانی نظام اس وقت مکمل طور پر خرابی کا شکار ہے۔ مغرب میں کیا شوہر تو کیا بیوی اور کیا دیگر رشتے دارحتی کہ والدین !!مغرب میں بالغ لڑکے یا لڑکی کو کلی طور پر روکنے اور کنٹرول کرنے کی اجازت والدین تک کو بھی نہیں اور جب چاہے کوئی لڑکا یا لڑکی اپنے ہی والد یا والدہ کے خلاف رپٹ درج کروا سکتا ہے۔ جب کہ اسلام نے ہر طور خاندانی نظام کی حفاظت کی مکمل ضمانت دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زنا، عریانیت ، عورت کا بیک وقت ایک سے زائد شادیاں کرنا، جیسے دیگر کئی پہلو کی حرمت کی وجوہات میں سے ایک یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے خاندانی نظام کو تحفظ دیا گیا ہے۔ اور نکاح کے معاملات، وراثت کے معاملات، رضاعت کے معاملات، ولد الزنا، والد کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کرنا کہ فلاں میرا والد ہے، لے پالک، محرمات وغیرہ کے حوالے سے بھی تفصیلی احکامات یہی سمجھاتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ کس حد تک خاندانی نظام کا تحفظ چاہتی ہے۔ نیز مشرقی تہذیب بھی خاندانی اعتبار سے قدرے مہذب ہے۔ بحمداللہ مشرقی اورخصوصاً مسلم ممالک کا خاندانی نظام ان تمام خرابیوں سے محفوظ ہے ، جو خرابیاں یورپی ممالک کے خاندانی نظاموں میںپائی جاتی ہیں۔ مزید یہ کہ شریعت خاندانی پرائیویسی کو اس حد تک حساس اور پردہ میں رکھنا چاہتی ہے کہ کسی کو چلتے ہوئے کسی کے گھر میں جھانکنے کی اجازت نہیں۔ بلکہ اگر کوئی جھانک لے اور گھر والا اس کی آنکھ پھوڑ دے تو شریعت اس پر کوئی سزا نہیں دیتی ۔جیسا کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیوار کے ایک سوراخ سے گھر کے اندر دیکھا ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنا سر کنگھے سے کھجلا رہے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگرمجھے معلوم ہوتا کہ تم جھانک رہے ہو تو میں تمہاری