کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 58
جن کا بولنا اور اقرار کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ۔
اور جو یہ کہا جاتاہے کہ انبیاء علیہم السلام اورصحابہ کرام کی اداکاری کرنے میں اسلام کی جانب دعوت دینے کی مصلحت اور ذریعہ ہے ، اور اس میں مکارم اخلاق کے پہلو اجاگر ہوتے ہیں ، اور محاسن اداب کا درس ملتا ہے یہ سب کسی طرح بھی ٹھیک نہیں ۔
اگر کچھ دیر کیلئے مان بھی لیا جائے کہ اس میں مصلحت ہے تو اس کا بھی کوئی اعتبار نہیں کیونکہ اس کے مقابلے میں بڑی مفسدت کا سامنا کرنا پڑتاہے اور وہ مفسدت جس کا تذکرہ سابقہ سطور میں گذرا ہے کہ اس سے صحابہ کرام اور انبیاء علیہم السلام کی قدر ومنزلت اور ساکھ کو نقصان پہنچتاہے ۔
شریعت اسلامیہ میں یہ مقررہ قواعد میں سے ہے کہ خیالی مصلحت کا کوئی اعتبار نہیں ، اور شریعت کے قواعد میں سے یہ بھی ہے کہ اگر مصلحت کے مساوی مفسدت آجائے تو بھی مصلحت کاکوئی اعتبار نہیں ، کیونکہ مفاسد کا ازالہ مصالح کے حصول پر مقدم ہے ، جبکہ یہاں مفسدت مصلحت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ جیسا کہ انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام کی اداکاری کا حال ہے ۔
عالم اسلام کی دو ممتاز فقہ کمیٹیوں کے فتویٰ اور فیصلے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ انبیاء علیہم السلام صحابہ کرام اور دیگر سلف صالحین کی سیرتوں کی فلم بندی انتہائی مذموم فعل ہے ۔ جس کی علتیں اور اسباب آپ ملاحظہ کر چکے ہیں نیز ان فلموں میں مزید کیا قباحتیں ہیں کہاں کہاں اسلامی تعلیمات کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں وہ بھی ملاحظ کریں تاکہ لیھلک من ھلک عن بینۃ ویحیٰ من حی عن بینۃ
۱ : تصویر سازی کا ارتکاب
اسلام کی نظر تصویر سازی محض قبیح اور گھناؤنا جرم نہیں بلکہ حرام اور لعنت وغضب الٰہی کا باعث ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”إن أشدالناس عذاباًعنداللّٰہ یوم القیمة المصورون‘‘[1]
’’ بے شک روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے دردناک عذاب تصویر بنانے والوں کو دیا جائے گا ‘‘۔
[1] صحیح بخاري:کتاب اللباس،باب عذاب المصورین یوم القیامة