کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 56
اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء کرام کو دی گئی اس فضیلت( جس میں ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سرفہرست ہیں ) اس بات کی متقاضی ہے کہ ان کی توقیر واحترام اورادب کو ملحوظ رکھا جائے ، اور جس شخص نے بھی ان کو کسی قسم کی ایذاء پہنچانے کی کوشش کی وہ دنیا وآخرت میں ذیل ورسوا اور خسارہ پانے والوں سے ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ارشاد فرمایا :
{ إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا}
ترجمہ : ’’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسواکن عذاب ہے ‘‘۔[الأحزاب: 57]
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی ایذا رسانی کو اللہ کو ایذا رسانا قرار دیاہے ، اور رسول کو ایذا دینے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دھتکار دیاہے اور انہیں آخرت میں دردناک عذاب کی نوید سنائی ہے ۔
اہل علم یہ قرار دے چکے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دینے میںاس حوالے سے صادر ہونے والے ہر قسم کے اقوال وافعال و کردارشامل ہیں ۔
انبیاء کی اداکاری ان کے حالات زندگی کو مشکوک اور ان پر جھوٹ وبہتان کا دوازہ کھولتی ہے ، یہ ناممکن امر ہے کہ اداکاروں کے حالات، سیرت، تصرفات اسی طرح ہوں جیسا کہ انبیاء ہیئت و وقار اور ہدایت سے معمور تھے ، یہ اداکار سابقا یا لاحقا ایسے غلط کردار ادا کر سکتے ہیں جس سے دیکھنے اور سننے والے کے ذہن میں یہ تصور بیٹھ جاتاہے کہ نبی بھی شاید ان صفات سے متصف تھے جیسی کہ اس شخص نے اداکاری کی ہے۔
امت مسلمہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے انبیاء کا دفاع کریں ان کے مقام ومرتبہ کے حفاظت کریں ، اور جو بھی انہیں کسی انداز وطریقے سے ایذا پہنچانے کی کوشش کرے اس کی بیخ کنی کریں ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہ جماعت ہیں جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف بخشا ہے ، اور اس کام کیلئے انہیں مخصوص کیا ہے ، اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے مقام ومرتبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس جماعت کی تعریف کی ہے :