کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 54
’’جیساکہ اکیڈمی نے اس سے قبل بھی 1405ھ میں ایک فیصلہ صادر کیا تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر تمام انبیاء کرام ورسل عظام اور صحابہ کرام کی تصویر کشی کی حرمت اور ایسے فعل کی روک تھام کو واجب قرار دیا تھا ، اور جیسا کہ دیکھا گیا کہفلم پروڈکشنکی بعض کمپنیاں ایسی فلمیں اور ڈرامے رلیز کر رہے ہیں۔ جن میں انبیاء کرام اور صحابہ کرام کی اداکاری کی گئی ہے، تو اکیڈمی اپنے سابقہ فیصلہ کی تائید و تاکید کرتے ہوئے دوبارہ زرو دیتی ہے کہ اس قسم کی فلموں اور ڈراموں کو رلیز کرنا شرعا حرام ہے ، اس طرح ان کی ترویج کرنا ، ایڈورٹائز کرنا ، انہیں اپنے پاس رکھنا ، دیکھنا ، ان میں کسی طرح حصہ ڈالنا انہیں چینلز پر نشر کرنا حرام ہے ۔ کیونکہ یہ چیز ان جلیل القدر ہستیوں کی تنقیص ، اور ان کی قدر ومنزلت میں کمی کا باعث بنے گی اور یہی چیز ان کے مذاق اور استہزاء کا ذریعہ اور سبب بنے گی ۔ ‘‘ اور یہ کہہ کرایسے کام کو جواز کا رنگ دینا ٹھیک نہیں کہ ان ڈراموں اور فلموں کے ذریعہ لوگوں کو ان عظیم ہستیوں کی سیرت وحالات وواقعات سے واقفیت حاصل ہوگی ، کیونکہ کتاب اللہ ان انبیاء کی سیرت بیان کرنے میں کافی وشافی ہے ۔ اسی بارے میں فرمان باری جل وعلا ہے : { نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَذَا الْقُرْآن} [يوسف: 3] ترجمہ : ’’ ہم آپ کے سامنے بہترین بیان پیش کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعے نازل کیا اور یقیناً آپ اس سے پہلے بےخبروں میں تھے‘‘ ۔ نیز فرمایا: {لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ} [يوسف: 111] ترجمہ :’’ان قصوں میں اہل عقل و خرد کے لئے (کافی سامان) عبرت ہے۔ یہ قرآن کوئی ایسی باتیں نہیں جو گھڑ لی گئی ہوں بلکہ یہ تو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔ اس میں ہر بات کی تفصیل موجود ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے یہ ہدایت اور رحمت ہے‘‘۔