کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 53
نہ بھی کرے توبھی یہی چیزبہت بڑی مصیبت ہے جس کےانتہائی خطرناک نتائج نکلتےہیں (کہ کسی مسلمان سے اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا) جس میں کفر معاشرتی بگاڑ اور انبیاء وصالحین کی تحقیر کے پہلو نمایاں ہوتے ہیں ۔ چہارم : ہاں یہ دعویٰ کرنا کہ اس اداکاری کا مقصد کامیاب تبلیغ ، ثمر آور دعوت ، اور تاریخی حقائق سے آگاہی ہے ۔ تو یہ ایسا دعویٰ ہے کہ حقیقت اس کے با لکل برعکس ہے ، اگر یہ دعویٰ صحیح بھی مان لیا جائے تو اس کا شر اس کے خیر پر غالب ہے ، اور اس کی مفسدت اس کی مصلحت پر حاوی ہے ۔ جس مسئلے کی صورت حال یہ ہو تو ضروری ہے کہ اس سے روکا جائے اور ایسے فعل کے ارتکاب کے بارے میں سوچا بھی نہ جائے ۔ اور جو یہ سوچتاہے اس کی سوچ کی بیخ کنی کی جائے ۔ پنجم : اسلام کی طرف دعوت دینے اور اس کی نشر واشاعت کے ذرائع اور وسائل بلاغ اس کے علاوہ بھی بے شمار ہیں ، جو انبیاء کرام نے اپنی امتوں کے لئے متعین کئے تھے اور ان کے فوائد وثمرات بھی بیش بہا ہیں جس میں اسلام کی نصرت بھی ہے اور عزت بھی ، تاریخ اور وقت نے ان کی صداقت اور کامیابی کی گواہی بھی دی ہے ۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم اسی صراط مستقیم کو لازم پکڑیں وہ راستہ اختیار کریںجو ان افراد کا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا یعنی انبیاء صدیقین شہداء اور صالحین کا راستہ ، ہمیں چاہئے اسی پر کفایت کریں نہ کہ وہ راہ اختیار کریں جس میں سنجیدگی اور بلند ہمت کے بدلےکھیل، تفریح اورہوائے نفس کی آبیاری اور ہویٰ پرستی ہو ۔ الشیخ عبد العزیز بن باز ، الشیخ عبد الرزاق عفیفی ، الشیخ عبد اللہ غدیان ، الشیخ عبد اللہ بن قعود[1] سعودی فتویٰ کمیٹی کے اس فیصلے کے بعد مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کے تحت قائم اسلامی فقہ اکیڈمی کا فیصلہ ملاحظہ فرمائیے ۔ اسلامی فقہ اکیڈمی نے اپنے 25 تا29 دسمبر 2010 م تک جاری رہنے والے اجلاس میں انبیاء وصحابہ کرام کی شخصیات پر فلم سازی کے حوالے سے درج ذیل فیصلہ اور فتویٰ صادر فرمایا :
[1] فتاوی العقیدة،حکم تمثیل الأنبیاء والصحابة والتابعین،رقم المسئلة:289: ص:469،