کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 52
باتوں ، بناوٹی حرکات وغیرہ پر مبنی ہوتی ہیں جس کا مقصد حاضرین کو اپنی جانب راغب کرنا انہیں محظوظ کرنااور ان کےجذبات پر کنٹرول حاصل کرنااور ان کی خواہشات کی تکمیل ہوتاہے ، اگرچہ انہیں اس مقصد کے حصول کیلئے ،تحریف ، یا اس میں زیادتی کا راستہ اختیار کیوںنہ کرنا پڑجائے۔ اور ( سب جانتے ہیں کہ ) یہ فی نفسہ کوئی لائق اور مناسب چیز نہیں ہے ۔ چہ جائیکہ اس میں انبیاء علیہم السلام ، صحابہ اور تابعین کے دورانِ دعوت وتبلیغ ادا کردہ الفاظ وبلاغ اور ان کی عبادت وجہاد اور اسلام کیلئے کی جانے ولی کاوشوں کی نقالی کی جائے۔
دوم : جو لوگ ان فلموں اور ڈراموں میں اداکاری کرتے ہیں ان میں زیادہ ترلوگوں میں سچائی اوراعلیٰ اسلامی اخلاق کا فقدان ہوتاہے ، ان میںاوٹ پٹانگ ہانپنےکی جرأت بھی ہوتی ہے ، اور وہ کہیں بھٹکنے کی بھی پرواہ نہیں کرتے ، اگرچہ اس کے ساتھ ان کی خواہش مقبولیت اور تفریح کے شائقین کےسامنے اپنی مقبولیت بڑھانا ہوتی ہے ، اگر ایسے لوگ صحابہ کی اداکاری کریں گے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس سے صحابہ کا تمسخر اور ان کا مذاق اڑےگا اور ان کی عزت وکرامت پر حرف آئے گا اور لوگوں میں ان کی قدر ومنزلت میں کمی ہوگی ، اور ان کی ہیبت اور وقار جو لوگوں کے دلوں میں قائم ہے وہ ختم ہوجائے گا ۔
سوم : اگر اس پہلو سے دیکھیں کہ یہ اداکاری دونوں فریقوں کی کی جائے یعنی ایک طرف سے کافروں کی جن میں فرعون ، ابوجہل اور ان کے ہم مشرب ہوں اور دوسری طرف برگزیدہ ہستیاں موسیٰ علیہ السلام، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیروکار ہوں ۔ تو یہاں جو ان کافروں کی نقالی اور اداکاری کرے گا تو لامحالہ وہ خود کو ان کافروں کے مقام پر کھڑا کرے گا ، ان کی زبان بولے گا ، کفریہ کلمات ادا کرے گا ، انبیاء پر سب وشتم اور دشنام طرازی کرے گا انہیں کاذب ، ساحر ، اور مجنون کے القابات سے نوازے گا ۔۔۔۔ انبیاء اور ان کے پیروکاروں کو بے وقوف قرار دے گا ان پر بہتان طرازی کرے گا جیسا کہ فرعون ، اور ابوجہل اور ان کی طرح کے لوگوں نے کیا تھا ۔ تو ایسا سب کچھ کرنا نقل کفر کفر نہ باشد کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایسا کرنے والا ان کی نمائندگی کرتے ہوئے کہہ رہا ہوتاہے اور کردارمیں مزید چاشنی پیدا کرنے،لوگوں کے دل موہ لینے کے لئے وہ کچھ مزید اضافہ وتحریف