کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 36
اورتنگ نتھنوں والی ناک ،پتلی پنڈلیوں ،مضبوط رانوں،ابھری ہوئی پیشانی کے مالک تھے،آپ کی انگلیوں کے جوڑ نمایاں تھے آپ اپنے بالوں اور داڑھی کو منہدی سے رنگتے تھے‘‘۔[1] قریش کے مشہور قبیلہ قارہ کے سردار ابن دغنہ نے آپ کے اوصاف حمیدہ کوان الفاظ میں بیان کیاہے: ’’إنك لتصل الرحم وتصدق الحديث وتكسب المعدوم وتحمل الكل وتعين على نوائب الدهر وتقري الضيف‘‘[2] اے ابوبکر !بے شک آپ ناداروں کی مدد کرتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں ، کمزورں کا بوجہ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مصیبت زدہ افراد کے کام آتے ہیں۔ اور یہی سردار انہیں اپنی پناہ میں مکہ لے کر آیا جب قوم والوں نے انہیں نکلنے پر مجبور کردیاتھا اور بیت اللہ میں صنادیدقریش کی مجلس میں جاکر مذکورہ بالاالفاظ کہہ کر ان سے کہا کہ ایسا شخص نہ نکلتا ہے اور نہ ہی نکالے جانے کے لائق ہے۔[3] دورِجاہلیت میں بھی آپ قابل عزت وتکریم تھے : امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وكان من رؤوساء قريش في لجاهلية وأهل مشاورتهم ومحبباً فيهم وأعلم لمعالمهم‘‘ [4] ’’سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا شمار دور جاہلیت میں قریش کے سرداروں او راہل مشاورت میں ہوتا تھا،آپ کی شخصیت نہایت محبوب تھی، قریش کے معاملات کو بہتر طور پر سمجھتے تھے‘‘۔
[1] سیدناابوبکرصدیق(مترجم)،ازڈاکٹر محمد علی صلابی،1/60۔ [2] فتح الباری7/274،سیدنا ابو بکر صدیق (مترجم)1/109-112۔ [3] سیدناابوبکرصدیق (مترجم)،ازڈاکٹرمحمدعلی صلابی،1/111-113۔ [4] تاریخ الخلفاء ص،12