کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 35
نجات دلائی ۔جب یہ سودا ہواتو انہیں اس سے لے کر آپ نے آزاد کردیا۔
اور دوسرے لوگ جنہوں نے مالِ صدیقی کے عوض آزادی پائی ان میں عامر بن فہیرہ، ام عبیس، زنیرہ، نہدیہ اور ن کی صاحبزادی اور بنومومل قبیلے کی لونڈی ان سب کو اپنے مال سے خریدکر لوجہ اللہ آزاد کردیا۔رضی اللہ عنھم اجمعین۔[1]
اواہ
یہ بھی آپ کے القابات میں سے ہے،جو کہ آپ کے خوف وخشیت پر دلالت کرتاہے،امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان کی نرم دلی اور مزاج میں شفقت ورحمت کی وجہ سے ’’اواہ‘‘ کے لقب سے نوازا گیا۔‘‘[2]
کنیت ، ابوبکر :
عرب میں کنیت کا رواج عام تھا ، یہ کبھی اولاد کے نام پرہوتی ہے ، جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابوالقاسم ہے اورکبھی کسی اورمناسبت کے پیش نظر رکھ دی جاتی ہے اس مناسبت سے آپ کی کنیت ابوبکر تھی اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لفظ ’’بکر‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ’’نوجوان اونٹ‘‘اس کی جمع ’’ابکر‘‘ ہے ،نیز عرب کے ہاں بچوں کو ’’بکر‘‘ سے موسوم کرنےکا رواج عام تھا اس لیے اس کی مناسبت سے آپ کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ پڑگئی اور اصل نام پر غالب آگئی۔[3]
حلیہ مبارک :
جہاں تک حلیہ کاتعلق ہے اس بارے میں کہاجاتاہے کہ آپ کارنگ سفید،جسم نحیف تھا ۔مختلف سیرت نگاروں نے آپ کے حلیہ مبارک کویوں بیان کیاہے:’’آپ سفید زردی مائل رنگت ،خوبصورت قدوقامت،نازک بدن ،جھکتی ہوئی کمر، پتلے چہرے، چھوٹی آنکھوں ،اٹھے ہوئے بانسے
[1] سیدناابوبکر صدیق (مترجم)،از ڈاکٹر محمدعلی صلابی،1/102-109۔
[2] طبقات ابن سعد3/171۔بحوالہ سیدنا ابوبکر صدیق(مترجم)،از ڈاکٹرمحمدعلی صلابی1/59۔
[3] سیدنا ابوبکرصدیق(مترجم)،ازڈاکٹرمحمدعلی صلابی، 1/53۔