کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 34
علماکااتفاق ہے کہ اس آیت میں ’’صاحب ‘‘ سے مراد سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔[1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس لقب کے حوالے سے رقمطراز ہیں : ’’ آیت [اِلَّا تَنْصُرُوْهُ ...] سیدناابوبکر کے عظیم فضائل ومناقب میں سے ہے،اس آیت میں بالاتفاق ’’صاحب‘‘ سے مراد سیدناابوبکر ہیں۔بہت سی احادیث اس بات پر شاہدہیں کہ غار میں سیدنا ابوبکر،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور اس فضیلت میں آپ کاکوئی ہمسر نہیں۔‘‘[2] اتقیٰ: یہ لقب قرآن مجید کے ذریعے سے ملاہے ،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: [ وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقٰی] ’’اور بڑا متقی اس (بھڑکتی آگ) سے ضرور دور رکھاجائے گا۔‘‘ مالِ صدیقی سے آزادی پانے والے: آپ نے مکہ میں اسلام قبول کرنے والے نادار غلام طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کو اپنے مال سے خرید کراللہ کے لیے انہیں آزاد کردیا ، ان آزادی پانے والوں میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ تھے ،انہیں ان کا مالک امیہ بن خلف سخت قسم کی تکالیف دیتاتھا اس ظالم نے انہیں ایک دن بھوکا پیاسا رکھا اگلے دن دوپہر کو تپتی ریت برہنہ پشت کرکے لٹادیا اور سینے پر بھاری بھرکم پتھر رکھ کر بولاکہ مرتے دم تک اسی حالت میں رہوگے جب تک کفر نہ کرلوان کی زبان سے نعرہ توحیدہی بلند ہوتارہا ،ایک دن سیدنا ابوبکر اس کے پاس اس حالت میں پہنچے وہ ان پرظلم کررہاتھا،آپ نے امیہ سے کہا: ’’الاتتقي فی ھذاالمسکین؟حتی متی؟‘‘اس بے چارے کو تکلیف دیتے ہوئے تم اللہ سے نہیں ڈرتے؟آخر کب تک یہ سلوک روا رکھوگے؟ اس نے کہا تم لوگوں نے اسے خراب کیاہے اگر اس کا اتناہی احساس ہے تو اسے اس مصیبت سے نجات دلاؤ،تو آپ نے اپنے ایک سیاہ طاقت ور غلام کے بدلےجوکہ کافرتھا انہیں اس کے ظلم سے
[1] تاریخ الدعوۃ الی الاسلام ،ڈاکٹریسری محمد ھانی ،ص:39۔بحوالہ سیدنا ابوبکر صدیق (مترجم)،از ڈاکٹر محمد علی صلابی،1/58۔ [2] سیدناابوبکرصدیق(مترجم)،از ڈاکٹر محمد علی صلابی،1/59۔