کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 30
یہ آغازِاسلام ہی میں مشرف بہ اسلام ہوگئی تھیں۔جب دعوت کے حوالے سے سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مکہ میں ماریں پڑیں اور اتنا ماراکہ لہولہان کردیا اور ان مارنے والوں میں بدبخت عتبہ بن ربیعہ پیش پیش تھا،اس ملعون نے آپ کے چہرے مبارک کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا،آپ کی حالت ایسی ہوگئی تھی کہ دیکھنے والے یہ گمان کرنے لگ گئے کہ آپ اس مار کی تاب نہ لاتے ہوئے فوت ہوگئےہیں،اس وقت بھی ہوش میں آتےہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھاکہ وہ کیسے ہیں؟جب بتایا گیاکہ وہ دارارقم میں ہیں تو کہنے لگے کہ جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ لوں اس وقت تک کچھ بھی نہ کھاؤں گا اور نہ ہی پیوں گا،رات کی تاریکی میں آپ کی والدہ اور ایک اور خاتون آپ کو سہارا دے کر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائیں ،آپ کی حالت کودیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر شدید رقت طاری ہوگئی ،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے:’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ،مجھے زیادہ تکلیف نہیں ماسوا چہرے کے جس کو اس بدبخت عتبہ بن ربیعہ نے گزند پہنچایاہے۔یہ میری مشفق والدہ ہیں اور خیروبرکت کا منبع ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا فرماکر میری والدہ کو اسلام کی دعوت دیجیے ،ہوسکتاہے کہ اللہ پاک انہیں بھی جہنم کی آگ سے بچالے۔‘‘چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی اور وہ اسی وقت اسلام کی دولت مالامال ہوگئیں۔[1]
ولادتِ باسعادت :
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت واقعہ فیل کے بعد ہوئی،کتنی مدت بعد ہوئی اس کی بابت اہل علم کےہاں اختلاف پایا جاتاہے ، تین سال،اڑھائی سال ،دوسال چندماہ جیسے اقوال مذکورہیں۔[2]
القاب مبارکہ:
آپ ’’عتیق‘‘ اور’’صدیق‘‘کےمبارک القاب سے ممتاز ہیں۔
[1] سیدناابوبکر صدیق(مترجم)،ازڈاکٹر محمد علی صلابی، 1/94
[2] سیدناابوبکر صدیق(مترجم) ،ازڈاکٹر محمد علی صلابی،1/60