کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 3
کا ایک ڈر اور خوف موجود رہتا ہے،اور یہ فلم بھی اسی خوف کی کمی کی طرف قدم بڑھانے کی پہلی سیڑھی نظر آتی ہے۔ خیر!! ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ اس فلم کا ٹائیٹل اور مقصود یہ ہوتا کہ ہماری نئی نسل قطعاً ایسے تعلقات کا شکار ہوکر اپنی دینی تعلیمات اور والدین کی بے عزتی اور خفت کا سامان نہ بنیں،الٹا اس فلم کے ذریعے سے ایسی سوچ رکھنے والے نوجوانوں کو یہ شہ دی گئی کہ یہ عمل قطعاً ان کے والدین کی بے عزتی اور خفت کا سامان نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے والدین کو بھی اولاد کا قتل یا ایسی سزا جو انہیں زخمی کرڈالے اس کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن اسلام اولاد کو بھی تو ایسے قبیح اعمال سے روکتا ہے۔ اور پھر اس قسم کی کسی بڑی غلطی جو زنا کی صورت میں منظر عام پر آتی ہے، اس پر حد بھی متعین کردی گئی ہے۔ اس اسلامی قانون کی اور اسلامی تربیت کی روشنی میں کون سے والدین چاہیں گے کہ ان کی اولاد ایسے گناہوں کے مرتکب ہوجائیں۔ اگر فلم میکر کا مقصد ایسے جرائم کی سرکوبی ہے تو پھر عورت کیلئے سب سے بڑا جرم اس پر جنسی تشدد ہے ، اس حوالے سے کو ئی ڈاکیو مینٹری بنائی جاتی مثلاً یورپ میں جذباتی جرم(crime of passion ) کے سبب تیس فیصد عورتیں جو سابقہ شوہر یا بوائے فرینڈ کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں، یہ فلم ان پر بنائی جاتی؟؟! ہر دو منٹ میں ایک عورت امریکہ میں جنسی تشدد(Sexual violence) کا شکار ہوتی ہے، کاش کہ اس پر کوئی ڈاکیو مینٹری بنائی جاتی؟؟! انڈیا میں ہر 20 منٹ میں ایک عورت جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ اس پر ڈاکیومینٹری بنائی جاتی؟؟![1] بلکہ 2011 میں انڈیا میں جنسی تشدد کے 24,206 واقعات رپورٹ ہوئے، اور یو ایس میں 83,425جنسی تشدد کے واقعات رپورٹ کئے گئے۔[2]گر اس پر کوئی ڈاکیو مینٹری نہیں بنائی گئی؟؟
[1] (http://www.more.com/news/india-rape-capital-world) [2] ایضاَ