کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 28
بہر حال اسی طرح فہمِ حدیث کا اختلاف یا قیاس و استنباط کا اختلاف یا حدیث کی صحت و ضعف کی وجہ سے اختلاف اور بھی بعض مسائل میں اہلِ حدیث علماء کے مابین ہے۔یہ علمی اختلافات اس بات کی دلیل ہیں کہ اہلِ حدیث کے ہاں کسی قسم کا تقلیدی جمود ہے نہ اکابر پرستی کا سلسلہ ۔ ان کے ہاں دلیل کی بنیاد پر بحث و مذاکرہ اور نقد و تحقیق کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اور جوبات ، جب بھی ، دلیل کی رُو سے راجح قرار پاتی ہے ، وہی ان کا مسلک بن جاتی ہے اور دوسری بات مرجوح یا متروک قرار پاتی ہے۔ اسی لئے اہلِ حدیث کے ہاں فقہ اہلِ حدیث کے نام سے کوئی متعین کتاب ایسی نہیں ہے جس کی پابندی ان کے ہاں ضروری سمجھی جاتی ہو۔ وہ ہر مسئلے میں احادیثِ صحیحہ اور فقہ الحدیث پر مرتب کتابوں سے براہِ راست استفادہ کرتے ہیں اور جو بات سمجھ میں آتی ہے، اسی پر وہ عمل کرتے ہیں اور اپنے عوام کو بھی اسی پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ایسی تحقیق کرتے وقت ان کے کوئی ذہنی تحفظات ہوتے ہیں نہ حزبی مفادات ، نہ کسی کی شخصی عظمت ہوتی ہے اور نہ کسی قسم کا فقہی جمود۔ اس میں ان کے درمیان کوئی اختلاف واقع ہوتا ہے تو وہ فہم و استنباط اور تعبیر و توجیہ کا ہوتا ہے، جس میں دونوں توجیہوں اور تعبیروں پر عمل کی گنجائش ہوتی ہے، کیونکہ مقصد دونوں کا ایک ہی ہو تا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر عمل کرنا ہے، نہ کہ ان کو نظر انداز کر کے کسی تیسرے شخص کے قول اور رائے پر ، بنا بریں اس علمی اختلاف کو تضاد و تعارض کہنا صحیح ہے نہ اسے فکری انتشار سے تعبیر کرنا ہی درست ہے۔