کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 26
قیاس کر کے ، قنوتِ وتر کیے لئے بھی ہاتھ اٹھانے کا اثبات کرتے ہیں، علاوہ ازیں بعض صحابہ کا عمل بھی اس کا مؤید ہے ( جو قیام اللیل ، للمروزی میں دیکھا جا سکتا ہے۔) تیسرا مسئلہ دعائے قنوت پڑھنے کے بعد ہاتھوں کو منہ پر پھیرنے کا ہے ۔ عام رواج تو ہاتھوں کا منہ پر پھیرنا ہی ہے، لیکن یہ عمل کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے،اس لئے علمائے محققین اس سے روکتے ہیں۔ البتہ عام دعا کرنے کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنا جائز ہے اور اس کی دلیل بعض صحابہ کا عمل ہے۔ کسی صحیح حدیث سے اس کا بھی ثبوت مہیا نہیں ہوتا۔ اس میں ایک مسئلہ دعائے قنوت میںنستَغفرک و نتوب الیک کے پڑھنے نہ پڑھنے کا بھی ہے۔ یہ دعائے قنوت حصن حصین میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے ، لیکن ظاہر بات ہے کہ حصن حصین حدیث کی کتاب نہیں ہے ، بلکہ دعاؤں کا مجموعہ ہے اور اس میں ضعیف روایات بھی ہیں ۔ جب براہِ راست کتب احادیث میں یہ الفاظ تلاش کئے گئے ، تو محولہ کتب حدیث میں ، یہ یہ دعائے قنوت نستَغفرک ونتوب الیک کے بغیر ہے، اس لئے علمائے محققین نے کہا کہ یہ الفاظ نہ پڑھے جائیں کیونکہ یہ ثابت نہیں ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بعض بزرگوں کی کتابوں میں یہ دعا ان الفاظ کے ساتھ ہے، اس لئے اس کو اسی طرح پڑھنا چاہئے۔ اب یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ان الفاظ کا وجود تو محولہ کتبِ حدیث میں نہیں ہے، لیکن ان کے پڑھنے پر اس لئے اصرار کیا جائے کہ بعض بزرگوں نے اس دعا کو ان الفاظ کے ساتھ اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے، حالانکہ ان الفاظ کی صحت پر اصرار ہے تو اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ان الفاظ کو محدثانہ منہج اور اصول سے ثابت کیا جائے اور حدیث کی کسی کتاب سے ان کو نکال کر دکھایا جائے۔ جب تک ایسا نہیں کیا جائے گا ، اُن حضرات کا مؤقف ہی صحیح سمجھا جائے گا جو ان الفاظ کو غیر ثابت قرار دے رہے ہیں۔ تاہم دعائے قنوت کی بابت پہلے تین مسئلوں کے اختلاف کی بنیاد چونکہ دلائل پر یا عملِ عام (رواج) پر ہے، اس لئے ان میں راجح مؤقف ان کا ہوگا جن کی دلیل زیادہ مضبوط ہوگی، بصورتِ