کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 25
’’لئن بقیت الی قابل لاصومن التاسعۃ‘‘[1]
’’اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو میں نویں محرم کا روزہ رکھوں گا۔‘‘
اس فرمانِ رسول کے فہم میں اختلاف ہوا ، جس سے مسئلے کی نوعیت میں بھی اختلاف ہو گیا۔ علماء کے ایک گروہ نے کہا ، اس کا مطلب ہے کہ میں صرف 9 محرم کا روزہ رکھوں گا ، یعنی دس محرم کا روزہ نہیں ، اس لئے وہ کہتے ہیں کہ اب صرف 9 محرم کا روزہ رکھنا مسنون عمل ہے۔ 10 محرم کا روزہ رکھنا بھی صحیح نہیں اور 10 محرم کے ساتھ 9 محرم کا روزہ ملا کر رکھنا بھی سنت نہیں۔ دوسرے علماء نے مذکورہ فرمانِ رسول کا مطلب یہ سمجھا کہ میں 10محرم کے ساتھ 9 محرم کا روزہ بھی رکھوں گا کیونکہ 10 محرم کا روزہ تو آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نجات پانے کی خوشی میں رکھا تھا۔ اس اعتبار سے 10 محرم کے روزے کی مسنونیت تو مسلّم ہے، لیکن یہودیوں کی مخالفت کے لئے آپ نے اس کے ساتھ 9 محرم کا روزہ رکھنے کی بھی خواہش کا اظہار فرمایا جس پر عمل کرنے کا موقع آپ کو نہیں ملا۔ بعض دیگر روایات سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے ۔ اسی لئے صاحبِ مرعاۃ مولانا عبید اللہ رحمانی ، امام ابن القیم اور حافظ ابن حجر رحمۃاللہ علیہ وغیرھم نے اسی مفہوم کو زیادہ صحیح اور راجح قرار دیا ہے۔ ( ملاحظہ ہو: مرعاۃ المفاتیح 3/ 270 ، طبع قدیم)
2۔ دعائے قنوتِ وتر کا مسئلہ ہے ، اس میں 3 مسئلے مختلف فیہ ہیں۔
دعائے قنوتِ وتر رکوع سے پہلے پڑھی جائے یا بعد از رکوع؟ ۔ اس میں روایات کی رو سے راجح بات قبل از رکوع کی ہے ، تاہم کچھ علماء بعد از رکوع کے بھی قائل ہیں۔
دوسرا مسئلہ ہے کہ دعائے قنوت ِ وتر میں ہاتھ اٹھائے جائیں یا ہاتھ اٹھائے بغیر دعا پڑھی جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دعائے قنوتِ نازلہ میں ( جو آپ نے ایک مہینہ پانچوں نمازوںمیں پڑھی ) ہاتھوں کا اٹھانا ثابت ہے، جو علماء دعائے قنوت ِ وتر میں ہاتھ اٹھانے کے قائل ہیں ، وہ دعائے قنوت ِ نازلہ پر
[1] صحیح مسلم: الصیام باب ای یوم یصام فی عاشوراء