کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 24
لئے کہ ہم امام بخاری کے مقلد تھوڑے ہی ہیں ، وہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہم تک پہنچانے والے ہیں ۔ ہم نے تو صرف ان کی امانت و دیانت اور تحقیق پر اعتماد کیا ہے۔ بات تو ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی مانی ہے جس کی بات کے ماننے کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ اس کا تقلید سے کیا واسطہ ؟ اسی طرح شیخ البانی وغیرہ محققین کی تحقیقات ہیں جن کی امانت و دیانت اور تحقیق پر اعتماد کیا جاتا ہے کیوں کہ انہوں نے بھی اس دور میں وہی کام کیا ہے جواس سے پہلے ائمہ حدیث اور فقہائے محدثین نے کیا ہے۔ اس کا بھی تقلید سے کیا واسطہ؟ ایک اور خلط مبحث یا خلافِ حقیقت تعبیر: بعض حضرات خلط مبحث کا ارتکاب کرکے اہل علم و تحقیق کے بعض علمی اختلافات کو بنیاد بنا کر یہ بات بھی کہہ رہے ہیں کہ بعض محقق یہ کہہ رہے ہیں ، اور دوسرے حضرات اس کے برعکس یا اس سے قدرے مختلف یہ بات کہہ رہے ہیں۔ اور پھر تحقیق ، یا استنباط یا فہم کے اس اختلاف کو انتشارِ فکر سے تعبیر کررہے ہیں یا اسے بھی سابقہ علماء سے اختلاف کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں، حالانکہ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ تحقیق کا اختلاف تو ایسا اختلاف ہے جو ہمیشہ سے چلا آرہا ہے اور اسے آئندہ بھی بالکلیہ ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ صحابہ و تابعین کے عہد میں بھی تھا، فہمِ حدیث اور اس سے اخذِ مسائل میں محدثین کے درمیان بھی یہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس قسم کا علمی اختلاف علمائے اہلحدیث کے درمیان بھی ہے اور رہے گا۔ اسے فکری انتشار سے تعبیر کرنا یا علمائے مرحومین سے اختلاف کا نتیجہ قرار دینا یکسر غلط اور حقائق کو مسخ کرنا ہے۔ بات کی وضاحت کے لئے چند مثالیں یہاں پیشِ خدمت ہیں۔ 1۔ جیسے عاشورے ( 10 محرم) کے دن روزہ رکھنے کا مسئلہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ روزہ رکھا کرتے تھے ، لیکن جب آپ کے علم میں یہ بات آئی کہ یہودی بھی عاشورے کا روزہ رکھتے ہیں، اور اس طرح ان سے موافقت یا مشابہت ہو جاتی ہے ، تو آپ نے یہودیوں کی مخالفت کے نقطۂ نظر سے فرمایا :