کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 23
واقعہ یہ ہے کہ جن بزرگوں نے وہ روایات اپنی بعض تالیفا ت میں درج کی ہیں ،تو انہوں نے تحقیق کے بغیر درج کردی ہیں ،ان کی تحقیق کی طرف انہوں نے توجہ نہیں دی ۔ اس لیے وہ تو یقینا معذور ہیں اور جو حضرات ان پرعمل کرتے آئے ہیں وہ بھی مأجور ہی ہوں گے، اس لیے کہ ان کی نیت حدیث پر عمل کرنے کی تھی اور وہ ان شاء اللہ ،اللہ تعالیٰ کے ہاں عامل بالحدیث ہی شمار ہوں گے۔ لیکن اب یا کسی وقت بھی ان کا ضعف ثابت ہو گیا ،تو پھر ایسی احادیث پر عمل کا کوئی جواز نہیں ہو گا ۔ ضعف ثابت ہونے کے بعد ان پر محض اِس لیے عمل کرناکہ فلاں بزرگ یہ لکھ گئے ہیں ، یا فلاں بڑے عالم نے اسے اپنی کتاب میں درج کیا ہے، یا ان پر عمل کرتے ہوئے ہماری عمریں گزر گئی ہیں۔ یہ سب باتیں محدثین کے منہج کے خلاف ہیں ، اہلِ حدیث کے مزاج و تربیتِ صحیح کے خلاف ہیں اور اسی تقلیدی ذہنیت کا مظاہرہ ہے جس کو اہل حدیث بجا طور پر حرام قرار دیتے ہیں۔ باقی رہی بات شیخ البانی رحمہ اللہ یا کسی اور محقق کی ۔ تو ان کی کسی تحقیق کی روشنی میں کسی سابقہ بڑے عالم اور بزرگ کی بات کو یا ان کی درج کردہ ضعیف حدیث کو چھوڑ دینا ، یہ شیخ البانی یا کسی اور کی بات اس لئے نہیں مان لی جاتی ہے کہ وہ کوئی مامور من اللہ ہیں یا ان کو مامور من اللہ باور کر لیا گیا ہے، بلکہ ان کی بات صرف اس لئے مانی جاتی ہے کہ انہوں نے محدثانہ اصول ہی کی روشنی میں احادیث کی تحقیق کی ہے، اسی لئے جہاںان سے غلطی ہوئی ہے یا ان کی کسی فکر میں منہجِ محدثین سے انحراف ہے، وہاں ان کی باتیں بھی مردود ہیں اور اس کی کئی مثالیں موجود ہیںجن سے اہلحدیث نے شدید اختلاف کیا ہے۔ لیکن ان کی بعض غلطیوں یا ان سے اختلافات کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی جلیل القدر خدماتِ حدیث کو اہمیت نہ دی جائے یا ان کی خدمات و تحقیقات سے استفادہ کرنے والوں کو ان کا مقلد قرار دے دیا جائے۔ یہ تو بالکل وہی بات ہے جو بعض جاہل قسم کے لوگ اہلِ حدیثوں کی بابت کہتے ہیں کہ ہم فلاں کے مقلد ہیں ، تو تم بھی تو امام بخاری وغیرہ کے مقلد ہو۔ ہم فلاں فقہ کی پابندی کرتے ہیں ، تو تم بھی تو صحیح بخاری وغیرہ کی پابندی کرتے ہو۔ کیا ان کی بات صحیح ہے؟ یہ الزام درست ہے؟ نہیں ، یقیناً نہیں ، اس