کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 22
اور اسی پروہ عمل پیرا ہیں ،کیونکہ وہ محدثین ہی کی جماعت ہیں اور ان کے فکر ومنہج کے وہ واحد علم بردار ہیں۔اور یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو تقلیدی مذاہب سے بچایا ہے ۔اسی طرح وہ اکابر پرستی سے بھی محفوظ ہیں،اس لیے ا ن کے ہاں یہ بات بھی نہیں ہے کہ فلاںبزرگ نے یہ فرمایاہےیا فلاں بزرگ کا یہ عمل ہے ،قطع نظر اس سے کہ بزرگ کافرمودہ یا عمل حدیث کے مخالف ہے یا موافق؟ان کے ہاں کسی بزرگ کی بات یا عمل اسی وقت قابل قبول ہوتا ہے جب اس کی بنیاد کسی نصّ شرعی پر ہوتی ہے،وہ نص واضح ہو قیاس صحیح کے طریقے پر نص سےمستنبط ہو ۔اس کے بغیر کسی بھی بڑے سے بڑے بزرگ کی کوئی بات یا اس کاعمل اہل حدیث کےہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔
لیکن اس دور میں تحقیقِ حدیث کا جو ذوق عام ہوا ہے اس کے نتیجے میںسنن وغیرہ کی بعض روایات جو تحقیق کے بغیر معمول بہ چلی آرہی تھیں یاعلمائے اہل حدیث کی بعض تالیفات میں درج تھیں۔ علاوہ ازیں ان روایات یا تالیفات کو قبول اور عام درجہ بھی حاصل تھا اورہے ،لیکن تحقیق کے بعد وہ روایت پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچیں گے ،تو اہل حدیث نے الحمدللہ بلا تأمل ان روایات پر عمل کرنا یا ان کو صحیح سمجھنا چھوڑدیا ۔ان کا یہ عمل ان کے فکری منہج کے عین مطابق بھی ہے اور ان کے مزاج و تر بیت کا حصہ بھی ۔
لیکن ہمیں افسوس ہے کہ بعض اہل حدیث عوام وخواص کی طرف سے اس مسلکی منہج اور مزاج و تر بیت کے برعکس یہ باتیں سننے میں آرہی ہے کہ فلاں بزرگ تو اتنے بڑے عالم تھے ،انہوں نے اپنی کتاب میں یہ روایات بیان کی ہیں ، یا عرصۂ دراز سے اہل حدیث ان پر عمل کرتے چلے آرہے ہیں یا ہم شیخ البانی رحمہ اللہ کے یا فلاں محقق کے مقلد تھوڑ ے ہی ہیں !
یہ کہنے والے اگر چہ تعدا د میں نہایت تھوڑے ہیں لیکن ہم ان سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ان کی مذکورہ باتیں یکسر سطحی بھی ہیں اور اُس مسلکِ محدثین سے انحراف بھی ، جس کے حامل اور علم برادر اہلِ حدیث ہیں۔علاوہ ازیں ان کی باتیںاس مقلدانہ ذ ہن کی غمّاز ہیں،جس کے خلاف اہل حدیث نے بھر پور جہاد کیاہے ۔