کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 20
صحیح نے بہ وقت تصحیح و تخریج ملحوظ رکھا تھا۔ (تفصیل کے لیے ملا حظہ ہو۔ کتاب’’ ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت ‘‘ تالیف غازی عزیر الجبیل،سعودی عرب ) ان اصولوں یا وضاحتوں سے مقصود اس بات کو واضح کرنا ہے کہ احادیث کی تحقیق کا فن کثیر الجہات ہونے کی وجہ سے نہایت دقیق اور ازحد مشکل ہے ۔اس میں پوری کوشش کرنے کے باوجود دوسرے پہلو کا امکان رہتا ہے ،تا ہم جب تک دوسرے پہلو کی واضح اور قطعی دلیل نہ ملے ،پہلی ہی بات اور فیصلےپر عمل کیا جائے گا ،اس لیے جن احادیث کی صحت و ضعف میںدو محققین کا اختلاف ہو ، وہاں تو دوسرے پہلو کا امکان زیادہ ہے ۔بنا بریں کسی حدیث کی صحت وضعف میں اختلاف کی صور ت میں عوام کے لیے اختیار کی گنجائش بھی ہے جیسا کہ پہلے وضاحت کی گئی ہے ۔ ضعیف حدیث مطلقاََ ناقابل عمل ہے یہ بات یاد رہے کہ یہ اختیار صرف مختلف فیہ روایات میں ہے لیکن جو روایت متفقہ طور پر ضعیف ہے ،اس پر عمل کرنا جائز نہیںہے ۔ضعیف حدیث کے بارے میں اگر چہ اختلاف ہے لیکن راجح مسلک اس پر عمل نہ کرنا ہی ہے۔اس کی بابت چارمسلک مشہور ہیں۔ جو حسب ذیل ہیں۔ (1)ضعیف حدیث مطلقاََ قابلِ قبول اور بلا شرط لائق عمل ہے ۔ (2) ضعیف حدیث مطلقاََ مقبول نہیں ،صرف فضائل اعمال اور ترغیب و ترہیب میں بلا قید شرط مقبول ہے ۔ (3)فضائل اعمال وغیرہ میں ضعیف حدیث چند شرائط کے ساتھ مقبول ہے ،مثلاً (ضعف شدید نہ ہو ، یعنی راوی کذّاب ،متّہم بالکذب اور فاش غلطی کرنے والا نہ ہو ۔وہ حدیث کسی اصلِ عام کے تحت داخل ہو ۔) اور اس حدیث پر عمل کرتے وقت اس کے ثبوت کا اعتقاد نہ رکھا جائے ۔ (4)ضعیف حدیث پر عمل مطلقاََ ناجائز ہے ،یعنی نہ احکام و مسائل میں اس پر عمل کرنا جائز ہے ،نہ فضائل اعمال میں ،اورنہ مشروط اور نہ غیر مشروط طور پر ، یعنی ضعیف حدیث کسی لحاظ سے قابل عمل