کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 19
اس میں اصل بنیاد دو چیزیں ہیں ،ایک نیت، دوسرا دیانتدارانہ محنت۔نیت یہ ہو کہ حدیث رسول پر عمل کرنا ہے ۔دوسرے ،یہ کہ حدیث کی تلاش وجستجو اور اس کی صحت وضعف کی تحقیق میں اس نے کوتا ہی نہ کی ہو۔ان دو چیزوں کے بعد وہ اُن میں کامیاب ہوگیا۔ تب بھی، اور ناکام رہا تب بھی۔ دونوں ہی صورتوں میں وہ عنداللہ فائز المرام ہی رہے گا۔محدثین کے بیان کر دہ اصولوں اور وضاحتوں سے بھی اس کی تا ئید ہوتی ہے جو ہم بیان کر رہے ہیں۔ مثلاً محدثین کی بعض وضاحتیں حسب ذیل ہیں : جب کسی حدیث کی بابت کہا جائے ’’ ھذا حدیث صحیح‘‘تو اس سےمراد نفس الامر میں حدیث کا قطعی صحیح ہو نا نہیں ہو تا ،کیونکہ اس میں ثقہ رواۃ کی خطا و نسیان کی گنجائش باقی رہتی ہے ۔[1] اسی طرح’’ ھذا حدیث غیر صحیح‘(یہ حدیث صحیح نہیں ہے)سے مرا دنفس الامر میں حدیث کا کذب (جھوٹا)ہونا نہیں ہوتا ، کیونکہ کاذب راوی کے صدق کا اور کثیر الخطا راوی کی اصابت کا امکان باقی رہتا ہے۔[2] ’’رجالہ رجال الصحیح‘‘(اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں)کہنا بھی صحتِ حدیث کی قطعی دلیل نہیں ہو تا ،کیونکہ صحیحین یاصحیح کے بعض راوی متکلم فیہ بھی ہیں۔ اور شیخین (امام بخاری ،و امام مسلم) ان سے صرف اسی وقت روایت کرتےہیں۔جب ان کی متابعت پائی جاتی ہو یا ان کے شواہد ہوں یا ان کو علم ہو کہ ان کی کوئی اصل موجود ہے ۔اسی لیے اگر وہ راوی کسی روایت میں منفرد ہوں یا ثقات کے خلاف راویت کریں ،تو ایسی صورت میں وہ ان سے روایت نہیں کرتے ،پس صحیح کے راوی ہونے کے باوجود اس بات کا احتما ل رہتا ہےکہ اس محدث کی شرائط میں سے ایسی کوئی شرط مفقود ہوجس کو صاحب
[1] لیکن محض ظن کی بنیاد پر اس کی صحت میں شک نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے صحیح ہی تصور کیا جائے گا اور اس پر عمل کیا جائے گا تاوقتیکہ اس کا ضعف واضح ہوجائے۔ [2] لیکن اس امکان کے پیش نظر کہ ممکن ہے وہ صحیح ہو اس پر عمل درست نہیں ہے، تاوقتیکہ اس کی صحت کی دلیل مل جائے، اس لئے صحت حدیث ہونے کے بعد وہ صحت قطعی ہی ہوگی تاوقتیکہ ضعف کی دلیل مل جائے اسی طرح وہ ضعف بھی قطعی ہی ہوگا تاوقتیکہ اس کی صحت واضح ہوجائے۔