کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 18
بہر حال یہ اور اس قسم کے دوسرے اسباب ضعف بعض دفعہ دور ہو جاتے ہیں اورروایت صحیح قرار پاتی ہے ۔اور یہی معاملہ صحیح روایت کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک محقق کے نزدیک اس میں بظاہر ضعف کی کوئی وجہ نہیں ہو تی ،اس لیے وہ اسے صحیح قراردے دیتا ہے ۔ لیکن کسی اور محقق کے علم میں اس کے ضعف کے اسباب آجاتے ہیں جن کی بنا پر اس کے لیے اسے ضعیف قرار دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو تا۔
اور یہ بھی ضروری نہیںکہ دوسرے محقق ہی کے علم میں ایسی معلومات آئیں جن سے حدیث کا حکم بدل جا ئے ،بلکہ خود فیصلہ کرنے والے کے علم میں بھی کوئی نئی معلومات آسکتی ہیں جن کی وجہ اس کا پہلا فیصلہ غلط قرار پائے ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی عمر فنّ ِ حدیث کی خدمت میں گزری، اور ان کا ایک ایک لمحہ اسی کام کے لیے وقف رہا ۔انہوں نے سیکڑوں حدیثوں کی بابت اپنا فیصلہ تبدیل کیا ،جن کو ان کے بعض تلامذہ نے ’’ تراجع العلامۃ الالبانی فیما نصّ علیہ تصحیحاّ وّ تضعیفاً‘‘کے نا م سے شائع بھی کر دیا ہے۔
جب واقعہ یہ ہے تو حدیث کی بابت دو محققوں کے ایک دوسرے سے مختلف فیصلے سے عوام کو گھبرانا یا تشویش میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ۔اہل علم کے لیے دونوں فیصلوں کا سامنے رہنا مفید ہے ۔ شاید کوئی اور محقق اس میدان میں آمنے سامنے آئے اور وہ موازنہ کر کے دونوں میں سے کسی ایک کے فیصلے کو دلائل کی رو سے راجح قرار دے دے۔یا اپنا حقِ نظر ثانی استعما ل کر کے خود محقق ہی اپنا فیصلہ تبدیل کرلے۔ علاوہ ازیں ایسی مختلف فیہ روایت پر عمل کرنے میں عوام کو اختیار ہے ،اگر وہ ایک ضعیف حدیث پر اس وجہ سے عمل کر لیں گے کہ ایک محقق نے اس کو صحیح قرار دیا ہے،تو امید ہے وہ محقق ہی کی طرح عنداللہ ماجور ہوں گے ،کیونکہ محقق اور عوام دونوں کے سامنے کوئی مخصوص فقہ اور اس کے مسائل نہیں ہیں،بلکہ حدیث کی عظمت ہی اس پر عمل کرنے کی محرک ہے۔اوراگر اس پر عمل نہیں کریں گے تو وہ انشاء اللہ گناہ گار نہیں ہوںگے،کیونکہ ایک محقق نے بہر حال اس کی تحقیق کر کے ہی اسے ضعیف قرار دیا ہے ،گو نفس الامر میں وہ صحیح ہی ہو ۔