کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 15
کردیتی ہیں ان کے بارے میں کچھ سوچا جائے کہ انہیں فاقہ کشی سے بچنے کے لئے اس نوبت تک نہ جانا پڑے۔ تفریحی مقامات میں تحفظ نسواں کو شامل حال رکھ کر اسلامی تعلیمات کے مطابق مؤثر قانون سازی کی جائے۔ اسپتالوں میں لیڈیز ڈاکٹر ، نرسیں ، فیکٹریوں ، کمپنیوں میں ملازمت کرنے والی عورتیں ، ان کے بارے میں جامع پلاننگ اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔ جس سے واقعتاً یہ محسوس ہو کہ حکومت تحفظ نسواں میں سنجیدہ ہے۔ ایک سروے کے مطابق ”وومن و بچہ“ جیل کراچی میں قید 226 خواتین میں سے 42 مائیں بن گئی ہیں جبکہ درجن سے زائد خواتین حاملہ ہیں۔ اس طرح قیدی بچوں کی تعداد بھی 462 تک پہنچ گئی ہے۔ سال 2014ء میں پاکستان میں خواتین پر تشدد اور قتل کے 5557 واقعات منظر عام پر آئے جن میں 1163 قتل، 368 غیرت کے نام پر اور 80 اقدام قتل کے مقدمات درج ہوئے۔ علاوہ ازیں 1203 خواتین کو اغوا، 667 زخمی، 256 پر گھریلو تشدد، 408 مردوں کی وجہ سے خودکشی، 82 اقدام خودکشی، 572 ریپ، 199 گینگ ریپ، 122 جنسی طور پر ہراساں، 74 کو حبس بے جا اور 43 خواتین کو جلایا گیا۔ 210 ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن میں خواتین پر تیزاب پھینکا گیا۔ اگر یہ اعداد و شمارصحیح ہیں ، تو اس کی رو سے 20کروڑ کی آبادی میں سے ایک طرف 256 واقعات جوکہ گھریلو تشدد کیوجہ سے ہوئے۔ باقی 5000 سے زائد واقعات کا تعلق گھریلو ازدواجی زندگی سے نہیں ۔ اب ہونا تو یہ چاہئے تھا ان کے اسباب کا سد باب کرکے ان پر کنٹرول کیا جاتاجبکہ یہاں معاملہ الٹ ہے کہ حکومت اور دیگر لوگ اسی لبرل ازم کی طرف بڑھ رہےہیں کہ 5000 سے زائد واقعات کی وجوہات میں اسی جنسیت اور مادیت کا اصل کردار ہے۔ بہرحال اگر مخلص ہیں تو اس طرح کے جرائم میں کمی لانے کے لئے کردار ادا کریں۔ اور یہاں اگر کوئی تقابل کرنا چاہے تو تقابل بھی کرے کہ گزشتہ اوراق میں بیان کئے گئے سروے کے مطابق جو صورتحال انڈیا یا یورپ و امریکہ کی